سعودی عرب کا قدیم جنگجو الہویتی قبیلہ ولی عہد محمد بن سلمان کے جدید شہر کے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ کیوں بنا ہوا ہے؟
[ad_1]
لندن میں مقیم سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ایک کارکن نے الزام عائد کیا ہے انھیں چند ایسے افراد کی جانب سے قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں جو ان کے خیال میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے حامی ہیں۔
عالیہ ابوتیاہ الہویتی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں یہ دھمکیاں فون کالز اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے ذریعے دی گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دھمکیاں اس وقت دی گئیں جب انھوں نے بین الاقوامی سطح پر سعودی حکومت کے ایک منصوبے کے حوالے سے آگاہی بیدار کرنے کی کوشش کی۔
اس منصوبے کے تحت سعودی حکام عالیہ الہویتی کے قبیلے کے افراد کو بحیرہ احمر کے اس ساحلی علاقے سے جبری طور پر بیدخل کرنے میں مصروف ہیں جہاں حکومت ایک نیا اور جدید ٹیکنالوجی شہر بسانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
عالیہ الہویتی نے بتایا کہ فون پر انھیں متنبہ کیا گیا کہ ’ہم تمھیں لندن میں بھی پکڑ سکتے ہیں۔ تم سمجھتی ہو کہ تم وہاں محفوظ ہو، مگر ایسا نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ انھیں یہ کہہ کر دھمکایا گیا کہ ’آپ کے ساتھ ویسا ہی ہو گا جیسا جمال خاشقجی کے ساتھ ہوا تھا۔‘
یہ بھی پڑھیے
سعودی عرب کا پانچ سو ارب ڈالر کا تعمیراتی منصوبہ
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اثر و رسوخ کی کہانی
خاشقجی بحران: محمد بن سلمان پر کیا اثر پڑے گا؟
محمد بن سلمان ایک بار پھر اہم شہزادوں کے خلاف سرگرم کیوں
عالیہ نے ان دھمکیوں کی تفصیلات برطانوی پولیس کے ساتھ بھی شیئر کی ہیں۔
جمال خاشقجی ایک سعودی صحافی اور سعودی ولی عہد کے بڑے ناقد تھے جنھیں سنہ 2018 میں ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے کے اندر سعودی ایجنٹوں نے قتل کر دیا تھا۔
مغربی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کے احکامات ولی عہد نے جاری کیے تھے تاہم سعودی حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔
13 اپریل کو عبدالرحیم الہویتی نامی ایک سعودی شخص نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی سکیورٹی فورسز انھیں اور ان کے قبیلے کے دیگر افراد کو سعودی عرب کے شمال مغرب میں واقع ان کی تاریخی علاقے سے بیدخل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ‘نیوم’ نامی نئے منصوبے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
عالیہ الہویتی کا تعلق بھی اس قبیلے سے ہے اور انھوں نے بھی یہ اور اسی نوعیت کی دوسری ویڈیوز سوشل میڈیا پر دوبارہ پوسٹ کر دیں۔
ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عبدالرحیم الہویتی یہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ حکومت کے بیدخلی کے احکامات کو نہیں مانیں گے۔ایک اور ویڈیو میں وہ کہتے ہیں کہ انھیں اندیشہ ہے کہ حکام اب ان کے گھر سے اسلحہ برآمد کروا دیں گے تاکہ ان کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
عبدالرحیم الہویتی کو بعدازاں سکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا۔
ریاست کی سکیورٹی فورس کے دفتر سے جاری ایک بیان میں عبدالرحیم کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی اور اہلکاروں کے پاس اس کا جواب دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
عالیہ الہویتی ان حکومتی دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ عبدل الرحیم الہویتی کے پاس کسی قسم کا آتشیں اسلحہ نہیں تھا۔
بدھ کے روز انھوں نے عبدالرحیم کے جنازے کے موقع پر ان کے گاؤں ال خوریبہ میں لی گئی تصاویر شیئر کیں ہیں۔ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود جنازے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
الہویتی قبیلہ کیا ہے؟
الہویتی قدیم اور روایتی طور خانہ بدوش قبیلہ ہے۔ اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد گذشتہ کئی صدیوں سے سعودی عرب اور اردن کی سرحدوں کے دونوں جانب آباد ہیں۔
تاریخی طور پر انھیں بے خوف جنگجوؤں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ سنہ 1917 کی عرب بغاوت کے دوران یہ قبیلہ ٹی ای لارنس کے ساتھ مل کر لڑا تھا۔ اپنی یاداشت ’سیون پلرز آف وزڈم‘ میں لارنس نے ان کا بطور خاص تذکرہ کیا ہے۔
اپنی نوجوانی کے ایام میں نے اس قبیلے کے افراد کے ساتھ اردن میں بہت سے ہفتے گزارے ہیں اور ان پرانی روایات کا مشاہدہ کیا جو اب بہت تیزی سے غائب ہو رہی ہیں۔
آج اس قبیلے کے افراد ریگستانوں میں خانہ بدوشی ترک کر کے گھروں اور آبادیوں کی صورت میں رہنے لگے ہیں۔
عالیہ الہویتی کہتی ہیں کہ ’وہ (قبیلہ) نیوم نامی منصوبے کو بنانے کے خلاف نہیں ہے۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ انھیں ان علاقوں سے زبردستی بیدخل نہ کیا جائے جہاں ان کے آباؤ اجداد کئی نسلوں سے رہتے آ رہے ہیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ عبدالرحیم الہویتی کے آٹھ رشتہ داروں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ انھوں نے بیدخلی کے احکامات کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔
عالیہ سمجھتی ہیں کہ مغرب میں موجود انسانی حقوق کے کارکنوں کی مدد سے وہ اس حوالے سعودی حکومت پر قانونی ذرائع سے دباؤ ڈال سکتی ہیں۔
عبدل الہویتی کی پرتشدد موت پہلا مسئلہ نہیں ہے جس نے ولی عہد شہزادہ محمد سلمان کے مستقبل کے اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہو جس کا مقصد سعودی عرب کی تیل کی آمدنی پر انحصار کو ختم کرنا ہے۔
اس سے قبل جمال خاشقجی کی موت نے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے سعودی حکومت پر اعتماد کو بُری طرح مجروح کیا تھا۔
حال ہی میں کورونا وائرس کی وبا نے عالمی معیشت پر انتہائی برے اثرات چھوڑے ہیں اور تیل کی قیمتیں تاریخی طور پر کم ترین سطح پر ہیں۔
اگر تیل کی قیمتیں ڈرامائی انداز میں واپس اپنی جگہ پر نہیں آتیں تو ریاض کے لیے اس بڑے تخمینے کے منصوبے کو فنانس کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس منصوبے کی ابتدائی لاگت 500 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
نیوم نامی منصوبہ ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن 2030 کا حصہ ہے جس کا مقصد سعودی شہریوں کو تیل کی صنعت کے علاوہ کسی دوسرے شعبے میں نوکریاں فراہم کرنا ہے۔
سعودی حکام کے مطابق اس منصوبے پر اب تک کام پلان کے مطابق جاری ہے۔ اتوار کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’کام اپنی ٹائم لائن کے عین مطابق جاری ہے اور پلان کے مطابق نیوم کے پہلے چند شہر سنہ 2023 تک مکمل ہو جائیں گے۔‘
حکومت کا مزید کہنا ہے کہ کانٹریکٹس دیے جا چکے ہیں۔ تین رہائشی علاقوں کا کانٹریکٹ بھی دیا جا چکا ہے جن میں 30 ہزار افراد رہائش پذیر ہو سکیں گے۔
ایک سینیئر سعودی وزیر کا کہنا ہے کہ ’یہ ہمارا بہت بڑا منصوبہ ہے۔ ہمیں اس کو چلانا ہے۔‘
مگر جبری بیدخلیاں، مظاہرہ کرنے والے شخص کی ہلاکت اور سنگین نتائج کی دھمکیاں ایک ایسے منصوبے کے بین الاقوامی موقف کو بہت کم ہی بہتر کر پائیں گے جس کے مستقبل کے حوالے سے سنگین خدشات پائے جاتے ہیں۔
Source link
International Updates by Focus News