کورونا وائرس اور موت: لاطینی امریکہ میں عزیزوں کی لاشیں تلاش کرتے خاندان کو اپنی رشتہ دار زندہ مل گئیں
[ad_1]
لاطینی امریکہ کا چھوٹا سے ملک ایکواڈور کورونا وائرس کی وبا سے بہت بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ یہاں ہسپتالوں میں افراتفری کا عالم ہے اور خاندان اپنے اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کی لاشیں ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔
تاہم یہاں سے آنے والی مسلسل بری خبروں کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب غلط شناخت کی بدولت ایک مردہ قرار دی جانے والی خاتون زندہ سلامت مل گئیں۔
مارچ 27 کو چوہتر سالہ ایلبا مارروری کے گھر والوں کو ان کی وفات کی خبر دی ملی اور انھیں مردہ خانے ان کی لاش کی شناخت کے لیے بھی بلایا گیا۔ تاہم وائرس کے خطرے کے وجہ سے انھیں لاش سے کچھ دور ہی رکھا گیا۔
ان کے بھانجے جیمی مورلا کے مطابق اتنی دور سے انھیں وہ لاش اپنی خالہ کی ہی لگی اور شناخت کے بعد لاش کو جلا کر راکھ ان کے خاندان کو بھجوا دی گئی۔
لائیو کوریج: کورونا: دنیا میں کیا ہو رہا ہے
علامات کیا ہیں: کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟
کورونا اور عام فلو: کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟
بچاؤ: کورونا وائرس: آپ کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟
پہلے سے بیمار افراد کیسے بچیں؟
کورونا وائرس پر بی بی سی اردو کی خصوصی کوریج
تاہم جمعرات کو ہسپتال میں جب مارروری کو تقریباً ایک ماہ کومے میں رہنے کے بعد ہوش آیا تو انھوں نے ڈاکٹروں سے اپنی بہن کا نمبر ملانے کو کہا۔
ہسپتال کی ایک ٹیم بھی ان کے خاندان سے معافی مانگنے گئی تھی۔ ان کے مطابق ہسپتال میں اتنی افراتفری کا عالم تھا کہ انھیں اس غلطی کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔
معـجزہ
ایکواڈور میں بہت سے لوگ اس خبر پر حیران ہیں کہ مارروری کووڈ-19 سے ہلاک ہونے والوں میں شامل نہیں ہیں۔ ان کے گھر والے ان کی واپسی پر خوش ہیں لیکن انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ انھیں جس لاش کی راکھ بھیجی گئی وہ کس کی تھی۔
مارروری کی بہن اورا نے کہا کہ یہ ایک معجزہ ہے ۔ ‘ہم ایک ہفتے تک یہ ہی سمجھتے رہے کہ وہ مر گئی ہیں اور ہمارے پاس کسی اور کی راکھ تھی۔’
لاپتہ لاشیں
ایلبا مارروری کو ایکواڈور کے شہر گویاکول میں، جو کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر ہے، ہسپتال میں داخل کروایا گیا کیونکہ حکام کو گھروں میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں جمع کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اینس سلیناس اور ان کے شوہر فلاڈلفیو کی 30 مارچ کو کورونا وائرس سے موت ہوئی۔
بی بی سی منڈو سروس سے بات کرتے ہوئے ان کے لواحقین نے بتایا کہ ان کے پیاروں کی موت کے بارے میں حکام کو مطلع کرنے کے چار دن بعد لاشیں گھر سے لے جائیں گئیں۔
اینس کی بہن برتھا نے بتایا کہ جب تک لاشیں گھر پر موجود تھیں تو انھیں پلاسٹک میں لپیٹ دیا گیا تھا لیکن وہ یہ جاننا چاہتی ہیں کہ لاشوں کو گھر سے لے جائے جانے کے بعد وہ کیا کریں۔
انھوں نے بتایا کہ حکام کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ انھیں انتظار کرنا پڑے گا اور لاشوں کی تدفین کے بعد انھیں اطلاع دے دی جائے گی تاہم انھیں کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔ انھوں نے اس حوالے سے اپنی شکایت درج کروادی ہے اور ان کے مطاقب ’اب ہمیں نہیں معلوم کیا کریں۔‘
نظام کی ناکامی
سلیناس اکیلی اس صورت حال کا سامنا نہیں کر رہی ہیں۔ درجنوں کی تعداد میں لوگ ہسپتالوں، مردہ خانوں اور تھانوں کے چکر لگا رہے ہیں۔
گویاکول شہر میں مارچ کے مہینے میں اتنی بڑی تعداد میں اموات سے صحت کا پورا نظام متاثر ہوا ہے۔ ہسپتالوں اور مردہ خانوں میں گنجائش نہ ہونے کے سبب بہت سی لاشوں کو خالی گوداموں میں ڈال دیا گیا جہاں وہ گلنا شروع ہو گئی ہیں۔
لوگوں کو اپنے عزیزوں کی لاشیں ان گوداموں میں تلاش کرنا پڑ رہی ہیں۔
ڈاریو فیگروا اپنی ماں سانتا مرینیتا کی میت مردہ خانے میں لاشوں کے ایک ڈھیر سے ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے۔
انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ وہ کئی دن سے ہپستال میں انتظار کر رہے تھے۔ ’پھر ہم سب نے مل کر ہسپتال والوں پر دباؤ ڈالا۔’
پھر وہ مردہ خانے کے باہر تعینات گارڈز کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انھوں نے ہمیں اندر جانے کی اجازت دے دی۔
انھوں نے کہا کہ ‘کچھ لوگ دستانے اور ماسک پہن کر مردہ خانے کے اندر داخل ہوئے اور کچھ نے پلاسٹک بیگ سروں پر چڑھا لیے۔ یہاں پر بدبو ناقابل برداشت تھی۔ کتنا ہولناک منظر تھا، اتنی زیادہ تعداد میں لاشیں اور جو پلاسٹک کے بیگوں میں ایک دوسرے کے اوپر پڑی تھیں۔’
کہاں جا کر روئیں؟
زیادہ تر خاندانوں کو اس افراتفری اور کورونا وائرس کے خطرے کی وجہ سے مرنے والوں کو مناسب طور پر الوداع کہنے کا بھی موقع نہیں مل رہا۔
سلیناس کی سب سے چھوٹی بیٹی کہتی ہیں کہ ان کے تمام رشتہ داروں نے ان کی قبر کے لیے پیسے دیے، لیکن جب تک لاش نہیں مل جاتی تو قبر کیسے بنائی جائے۔
انھوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں جانتی ہیں کہ ان کے والدین کی لاشیں کہاں ہیں اور یہ ان کے لیے اتنی تکلیف دہ بات ہے کہ وہ نہیں جانتی کہ وہ کہاں جا کر روئیں۔
Source link
International Updates by Focus News