پاکستان مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ نے آئندہ عام انتخابات مل کر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ن لیگ دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر پیپلز پارٹی کے خلاف سندھ میں سیاسی اتحاد قائم کرنے جا رہی ہے۔
تاہم معاملے سے واقفیت رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف اتحاد قائم نہیں کرے گی کیونکہ دونوں جماعتوں کے درمیان کشیدگی میں کمی لانے اور ملکی مسائل کو مل کر حل کرنے کے لیے یکساں سوچ اپنانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
منگل کو مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم قیادت سے ملاقات کے بعد جب یہی سوال مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق سے کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی ایک تاریخ ہے۔ ایم کیوم ایم اور ن لیگ کے تعلقات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت ہمارے اتحادی ہیں۔ سندھ کی ایک ایک اور بڑی جماعت جی ڈی اے سے بات کی جائے گی لیکن یہ سب کچھ ابھی تجویز ہے۔ حتمی فیصلہ کیا ہوگا اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔‘
دوسری جانب چند روز قبل ’نواز شریف کو وزیراعظم نہیں بننے دوں گا‘ جیسا سخت بیان دینے والے آصف علی زرداری نے بھی جب گھوٹکی میں کارکنوں سے خطاب کیا تو ان کا لب ولہجہ بدلا ہوا تھا۔
نواز شریف اور ن لیگ کا نام بھی نہ لیا اور نہ ہی ان پر کوئی تنقید کی بلکہ کہا کہ ہمارے خلاف جو بھی الیکشن لڑے گا ہم اس کا خیرمقدم کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جو مخالف الیکشن میں آ رہے ہیں اور ہمارے خلاف لڑیں گے انہیں بسم اللہ، آئیں آپ کھڑے ہوں ہم آپ کو ویلکم کرتے ہیں۔ جمہوریت ہو گی آپس میں مقابلہ ہوگا تو تبھی جا کر بہترین نتیجہ سامنے آئے گا۔ اور ہم کسی کو منع نہیں کرتے، ہم کہتے ہیں آپ اپنی سیاست کریں ہماری اپنی سیاست ہے۔‘
ابھی ایک روز قبل ہی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ترجمان پریس کانفرنس کے ذریعے آمنے سامنے تھے تو اچانک یہ لہجے کیوں تبدیل ہوئے ہیں؟
اردو نیوز نے اس حوالے سے معلوم کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لیے کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے قریب سمجھی جانے والی ایک اہم سیاسی شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان فائر فائٹنگ پر کام جاری ہے۔‘
ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کو کہا گیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کو سندھ، کے پی اور جنوبی پنجاب میں زیادہ تنگ نہیں کرے گی۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ’بظاہر مسلم لیگ ن سندھ کی سیاسی جماعتوں سے اتحاد کی بات کر رہی ہے۔ لیکن یہ انتخابی اتحاد نہیں ہوگا بلکہ بعض حلقوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی اور انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے پر تنقید نہیں ہوگی تاکہ انتخابات کے بعد اتحاد کرنے میں کوئی بڑا مسئلہ نہ ہو۔‘
اس حوالے سے ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے بھی اپنی گفتگو میں اشارہ دیا اور کہا کہ ’صرف ایک ساتھ انتخاب نہیں لڑنا بلکہ چیلنجز کا بھی سامنا کرنا ہے، معیشت کے سنگین مسائل کے حل کے لیے بھی سر جوڑ کر بیٹھنا ہے۔‘
دوسری جانب کے پی میں جن حلقوں سے ماضی میں پیپلز پارٹی جیتتی رہی ہے اور وہاں مسلم لیگ ن کا کوئی امیدوار مضبوط نہیں تھا ان حلقوں میں ن لیگ کوئی نئی صف بندی نہیں کرے گی۔
اس کے ساتھ پنجاب میں راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود کے حلقوں میں بھی ن لیگ زیادہ زور آزمائی نہیں کرے گی۔
ذرائع کے مطابق ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ دوستوں نے اس سلسلے میں دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت سے رابطہ کرکے صورت حال کو سنبھالنے کا کہا ہے۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سلسلے میں اگر باضابطہ کوئی اعلان سامنے نہ بھی آیا تو بھی خاموش مفاہمت سے کام چلایا جایا جائے گا۔
تاہم جن حلقوں میں دونوں جماعتوں کے امیدوار آمنے سامنے ہوں گے انھیں بیان بازی سے نہیں روکا جائے گا۔