فلسطین کی حمایت میں مارچ پر پابندی سے انکار: برطانوی حکومت اور لندن پولیس آمنے سامنے
حکومت نے لندن پولیس کے آفسران پر الزام لگایا ہے کہ وہ بائیں بازوں کے ایشوز پر نرم رویہ رکھتے ہیں۔
رواں ہفتے کے آخر میں فلسطین کی حمایت میں لندن میں شیڈول مارچ کی ہینڈلنگ کے حوالے سے برطانوی حکومت اور لندن پولیس کے سربراہ کے درمیان اختلافات بڑھ گئے ہیں۔
حکومت نے لندن پولیس کے آفسران پر الزام لگایا ہے کہ وہ بائیں بازوں کے ایشوز پر نرم رویہ رکھتے ہیں۔
آنے والے سنیچر کو لندن میں ہونے والے مظاہرے نے پولیس اور حکومت کے درمیان تنازع کھڑا کر دیا ہے۔
پولیس کے اس موقف کے بعد کہ لندن میں ہونے والے مظاہرے پر پابندی لگانے کی کافی وجوہات موجود نہیں، وزیر اعظم رشی سونک نے کہا کہ اگر مظاہرے میں کوئی گڑ بڑ ہوئی تو وہ پولیس کو جوابدہ ٹھرائیں گے۔
حماس کے حملے کے بعد غزہ پر اسرائیلی بمباری کی شروعات کے بعد لندن میں یورپ کے سب سے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔ ہر ہفتے لاکھوں مظاہرین لندن میں جمع ہر کر اسرائیل کے غزہ پر حملے کو فوری روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ 11 نومبر کو پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے دن لندن میں بہت بڑے مظاہرے کا امکان ہے لیکن 12 نومبر کو جب عالمی جنگ کے خاتمے کے حوالے سے باضابطہ تقریبات ہوگی تو اس دن کوئی مظاہرہ نہیں ہے۔
وزیراعظم رشی سونک نے ان مظاہروں کو توہین آمیز قرار دیا لیکن لندن کے پولیس کمشنر مارک راولی کا کہنا ہے کہ مظاہروں پر کسی قسم کی پابندی کے لیے کسی ممکنہ خطرے یا شدید ہنگامے کے حوالے سے قابل اعتبار انٹیلیجنس معلومات درکار ہوتی ہے۔
پولیس کمشنر کے مطابق گذشتہ ایک دہائی سے مظاہروں پر اس قسم کی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔
برطانوی وزیر داخلہ نے فلسطین کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والوں کو ’ہیٹ مارچرز‘ (یعنی نفرت کا پرچار کرنے والے مظاہرین) کہہ دیا ہے۔
جمعرارت کو فرائیڈے ٹائمز میں لکھا کہ ’یہ مخصوص گروپوں خصوصا اسلامی گروپوں کی جانب سے اہمیت جتانے اور اپنی طاقت کا اظہار ہے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’ بدقسمتی سے ایک تاثر ہے کہ جب مظاہرین کی بات آتی ہے تو پولیس افسران ذاتی پسند کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
’کوڈ کے دوران لاک ڈاؤن کے مخالفین کو مظاہرہ کرنے نہیں دیا گیا لیکن ’بلیک لائیو میٹرز‘ کو تو نہ صرف ایسا کرنے دیا گیا بلکہ قوانین کو بھی توڑنے دیا گیا۔‘
وزیر داخلہ سویلا بریورمین، جن کو حکمران کنزر ویٹیو پارٹی کے مستقبل کی لیڈر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، نے لکھا کہ آزادی اظہار اور احتجاج برطانیہ کے قدیم روایات ہیں لیکن اس پر بحث ہونا چاہیے کہ کچھ مظاہرے اتنے توہین آمیز ہیں کہ ان کو پابندی ہونی چاہیے۔
لندن پولیس کے ایک سابق سینیئر آفیسر نیل باسو کا کہنا ہے کہ سیاسی تنقید مخالف مظاہروں کے امکان کو بڑھا دے گا جس سے تشدد کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
اکتوبر 7 کے بعد لندن میں 200 افراد ’نفرت انگیز جرائم‘ کے الزام میں گرفتار ہوئے ہیں۔