غزہ میں اسرائیل کے اقدامات نسل کشی ہے: سابق عہدیدار اقوام متحدہ
انسانی حقوق آفس کے عہدیدار کریگ موخیبر نے اقوام متحدہ پرغزہ میں نسل کشی اور نسل پرستی کو روکنے میں ثبوتوں کے بھرمار کے باجود بزدلی کا مظاہرہ کرنے کا بھی الزام لگایا تھا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق آفس کے ایک اہم عہدیدار چند دن قبل اقوام متحدہ پر غزہ کے لوگوں کی حفاظت کرنے میں ناکامی کا الزام لگاتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔
انسانی حقوق آفس کے عہدیدار کریگ موخیبر نے اقوام متحدہ پرغزہ میں نسل کشی اور نسل پرستی کو روکنے میں ثبوتوں کے بھرمار کے باجود بزدلی کا مظاہرہ کرنے کا بھی الزام لگایا تھا۔
عرب نیوز کے کرنٹ افیئرز کے شو ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں بات کرتے ہوئے کریگ موخیبر نے اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل کی فلسطین میں نسل پرستی کے خلاف بولنے میں ہچکچاہٹ پر تنقید کی اور کہا کہ تقریبا دنیا کی تمام قابل ذکر انسانی حقوق کی تنظیموں نے فیصلہ کیا کہ نسل پرستی کا جرم وہاں (فلسطین) میں اسرائیل کے اقدامات میں واضح ہے۔
اپنے تفصیلی انٹرویو میں کریگ موخیبر نے اس پر گفتگو کی کہ آیا ان کے استعفے سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق آفس میں کوئی تبدیلی آئے گی یا نہیں اور وہ کیوں کہتے ہیں کہ اسرائیلی لابسٹس اقوام متحدہ کے رہنماؤں پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
غزہ میں ابتر ہوتی صورتحال کو بہتر کرنے میں اقوام متحدہ کی بظاہر ناکامی کو سنیچر کو مشترکہ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس میں بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق آفس نیویارک کے ڈائریکٹر کے طور پر استعفیٰ دیتے ہوئے کریگ موخیبر نے کہا تھا کہ غزہ میں اسرائیلی حملے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے ملی بھگت سے ہو رہے ہیں۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اتوار تک ان حملوں میں 11 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جن میں 4500 سے زائد بچے ہیں۔
نسل کشی کے ایک قانونی اصطلاح ہونے کے باوجود آج کل اسے بہت زیادہ سیاسی اصطلاح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
لیکن بطور انسانی حقوق کے وکیل کے کریگ مخیبر کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے اقدامات بلاشبہ نسل کشی کے مترادف ہے۔
’سب سے پہلے تو میں اس ایشو سے بطور انسانی حقوق کے وکیل نمٹتا ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ میں اقوام متحدہ کے نسل کشی کے کنونشن میں جو انسانی حقوق کے قوانین ہیں، اس میں اس کی تعریف ہے اس کی بات کرتا ہوں۔ ان قوانین میں نسلی کشی کی واضح تعریف موجود ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بنیادی طور پر اس میں دو حصے ہیں۔ ایک ہے ’تباہ کرنے کی نیت‘ اور دوسرا وہ مخصوص افعال کی ایک فہرست ہے جو کسی اشکال کے بغیر ہے۔ ہم قتل عام کی بات کر رہے ہیں۔‘
’ہم بات کر رہے ہیں شدید نقصان کی بشمول جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کی۔ ہم بات کر رہے ہیں ایسی حالت لوگوں پر تھوپنے کی جس کا مقصد آبادی کو تباہ کرنا ہو۔ یہ غزہ کے 2015 سے جاری محاصرے سے واضح ہے جس کا مقصد آبادی کو خوراک، ادویات، مناسب رہائش، پانی، نکاسی کی سہولت کی فراہمی روکنا اور آزادی سے حرکت کرنے کے حق پر قدعن لگانا ہے اور مذکورہ سہولیات زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔‘
کریگ موخیبر نے کہا کہ عموماً جب آپ نسل کشی کی تحقیقات کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کو آرکائیوز میں سے گرد آلود فائلوں کو چھاننا پڑتی ہے تاکہ ’ارادے‘ کو ثابت کیا جا سکے۔ لیکن اس کیس میں اسرائیل کو بلاروک ٹوک یہ جرائم کرنے کی دہائیوں سے ملی آزادی کی وجہ سے اسرائیلی حکام کھلے عام اپنے بیانات میں نسل کشی کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں جن میں صدر، وزیراعظم، کابینہ کے سینیئر ارکان اور اہم فوجی حکام شامل ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے، فلسطینیوں کے بارے میں غیر انسانی رویے اور غزہ میں موجود جنگجوں اور غیر جنگجوں میں تفریق نہ کرنے کے اعلانات کیے ہیں۔
’یہاں تک وزیراعظم نیتن یاہو نے بائبل کی ایک آیت کا حوالہ دیا اور پوری آبادی کو خواتین، بچوں، بوڑھوں اور جانوروں سمیت ختم کرنے کا کہا۔‘
انہوں نے کہا کہ بائبل کی اس مخصوص آیت کا حوالہ دینا نسل کشی کے ارادے کو بالکل واضح کرتا ہے اور اس کے ساتھ کئی ایسے اقدامات ہو رہے ہیں جو کہ نسل کشی کے کنونشن میں مذکور افعال کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔
’1948 سے جاری نسلی طور پر فلسطینیوں کو ختم کرنے کے اقدامات میں موجودہ صورتحال نسل کشی کا بظاہر سب سے واضح کیس ہے۔‘
کریگ موخیبر نے ان ناقدین کو بھی جواب دیا جو کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں موجود بعض سویلین حماس کے جانب سے کیے گئے 7 اکتوبر کے حملوں میں ایک طرح سے شریک ہیں کیونکہ انہوں نے انتخابات میں حماس کو ووٹ دیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نسل کشی پر بیان بازی سرکاری عہدیداران کی طرف سے ہی نہیں بلکہ عوام کے شعور میں بھی شامل کر دی گئی ہے۔
’اگر آپ صرف غزہ ہی کی بات کر رہے ہیں تو آپ 23 لاکھ سویلین کی بات کر رہے ہیں جو ایک گنجان ’اوپن ایئر جیل‘ میں رہ رہے ہیں۔ ان کو عملی طور پر اس علاقے میں پنجرے میں رکھا گیا ہے، جو کہ آزادانہ طور پر باہر نہیں جا سکتے، اور ان کو مسلسل مناسب خوراک، پانی، پناہ، نکاسی اور ہر اس چیز سے محروم کیا جاتا ہے جو کہ مناسب زندگی کے لیے ضروری ہے۔‘
1990 میں غزہ میں رہنے کے اپنے تجربے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سابق عہدیدار نے کہا کہ غزہ ان بہترین مقامات میں سے ہے جہاں وہ رہے ہیں۔ ’بہترین اس لیے نہیں کہ وہاں زندگی کی سہولیات موجود تھیں بلکہ وہاں کے لوگوں کی وجہ سے جن سے میں وہاں ملا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی جو تصویر کشی میڈیا میں کی جاتی ہے یا سیاستدان کرتے ہیں وہ فلسطینیوں کی اصل تصویر نہیں۔ ’اگر آپ فلسطینیوں کو اپنے جیسا انسان سمجھ کر کسی بچے، خاتون، مرد، دادا یا دادی کی آنکھوں میں دیکھ سکیں، اور ان کو انسان سمجھ کر ان کو جاننے کی کوشش کریں تو آپ دیکھیں گے کہ وہ روتے ہیں، ہنستے ہیں، وہ محبت کرتے ہیں، وہ پارٹی کرتے ہیں وہ تمام چیزیں کرتے ہیں جو آپ کی اپنی فیملی کرتی ہے۔‘
کریگ موخیبر نے اسرائیل حملے کو صرف حماس کے خلاف جنگ قرار دینے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے لوگ صرف نمبر یا اعداد و شمار نہیں۔‘
’یہ کوئی دنیا کے گمنام علاقے میں رہنے والے ظالم لوگ نہیں، یہ انسان ہیں، یہ میں، آپ اور ہم ہیں۔ اگر ہم فلسطینیوں کو انسان نہ سمجھنے کے رویے کو چھوڑ دیں اور وہاں موجود سب کو مسلمان، عیسائی اور یہودیوں کو برابر انسان سمجھنا شروع کر دیا تو ہم اس مسئلے کا حل تلاش کریں گے۔‘
ان کا استدال ہے کہ نیتن یاہو کا مقصد غزہ سے حماس کو ختم کرنا نہیں بلکہ ہر سویلین کو ختم کرنا ہے اور یہ نسل کشی کا ٹیکسٹ بک کیس ہے۔