سانحہ پاراچنار ۔۔ریاستی رٹ کے خلاف ایک چیلنج !!……پیر مشتاق رضوی
اسی قسم کے مذمتی روایتی بیانات گزشتہ برس ہا برس سے جاری ہیں لیکن متاثرہ حلقوں کی طرف سے سوال اٹھایا گیا ہےکہ پارہ چنار کے لوگ کانوائے کے حصار میں جا رہے تھےتو مارے کیسے گئے مسافر مارے گئے
سانحہ پارا چنار ملک میں جاری سیاسی محاذآرائی کی وجہ سے پس منظر میں چلا گیا ہے گذشتہ ہفتہ پاراچنار کے علاقے میں معصوم مسافروں کا قتل عام شعیہ کمیونٹی کے افراد کا نہیں بلکہ بے گناہ پاکستانیوں کا بہیمانہ قتل ہے
سانحۀ پارا چنار آرمی پبلک سکول کے بعد سب سے بڑا انتہائی دردناک واقعہ ہے جس میں معصوم شیر خوار بچوں کو بھی نہیں بخشا گیاپارچنار سانحہ شہداء کی کل تعداد 81 بتائی گئی جن میں خواتین کی تعداد 21 اور 17 معصوم شیر خوار بچے بھی شامل ہیں شہید ہونے والے 21 بچوں کی عمریں 7 اور 13 سال کے درمیان بتائی گئں ہیں پاراچنار میں کھلی دھشت گردی کے اس المناک واقعہ کی ملک بھر کے علاوہ عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی جبکہ صدر مملکت‘ وزیراعظم اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنمائوں نے پارا چنار میں دہشت گردی کے اس واقعہ کی پر زور مذمت کرتے ہوئے اسے ان عناصر کی کارروائی قرار دیا ہے جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ اسی قسم کے مذمتی روایتی بیانات گزشتہ برس ہا برس سے جاری ہیں لیکن متاثرہ حلقوں کی طرف سے سوال اٹھایا گیا ہےکہ پارہ چنار کے لوگ کانوائے کے حصار میں جا رہے تھےتو مارے کیسے گئے مسافر مارے گئے معصوم دودھ پیتے بچے مارے گئے عورتیں ماری گئی نہتے بزرگ و جوان جو محافظوں کی حفاظت میں کانوائے میں اطمینان سے جا رہے تھے سب مارے گۓ پارا چنار میں دہشت گردی کا یہ واقعہ سیکورٹی فورسز کے لئے ایک چیلنج ہے کیونکہ مُلک میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ دیا گیا تھا اور جون 2014ء سے جاری فوجی آپریشن”ضرب عضب‘‘ کے نتیجے میں دہشت گردوں کے مکمل قلع قمع کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ کوئی حکام اعلیٰ سے پوچھے کہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ اتنی ہی کامیابی سے جاری رہی جتنی دُنیا کو بتاتے ہیں تو پھر پارا چنار کا یہ واقعہ کیسے رُونما ہوگیا؟اس بارے کوئی دو راۓ نہیں اور پاکستان کا کوئی شہری دہشت گردی کے خلاف اپنی فوج‘ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والی فورسز کی قربانیوں سے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن حکومت اور سیکورٹی کے ذمہ دار اداروں پر پاکستانی عوام کی بلا امتیاز جان اور املاک کے تحفظ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اُن سے جائز طور پر پوچھا جا سکتا ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ دہشت گرد جب چاہیں‘ جہاں چاہیں اور جسے چاہیں اپنی مذموم کارروائیوں کا نشانہ بنانے اور پھر صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟
اس سوال کا دوسرا پہلو انتہائی تشویشناک ہے کہ ملک دشمن عناصر کی طرف سے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لئے سانحۀ پاراچنار جیسے واقعات کا سارا ملبہ سیکورٹی فورسز پر ڈالنے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے جس کے لئے سوشل میڈیا پر بڑے منظم انداز میں زہریلا پروپگنڈا کیا جاتا ہے ڈیجٹل دھشتگردی کو پھیلایا جارہا ہے واضح رہے کہ سانحہ پاراچنار سے چند روز قبل پے در پے اور یکے بعد دیگر دھشت گرد خوارجین کے مختلف حملوں میں بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز کے جوانوں نے جام شہادت نوش کیا پاک افواج کے افیسرز اور جوان اپنی جانوں کے نذرانے دے کر دھشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہیں پاک افواج کے جوانوں کی شہادتیں دھشت گردی کے خلاف پاک افواج کے عزم کو اور مضبوط کرتی ہیں مجلس وحدت مسلمین کے مطابق بگن کے مقام پر پارہ چنار سے پشاور جانے والی مسافر گاڑی پر دہشتگردوں کی فائرنگ سےہونے والی شہادتوں سے معصوم شہریوں کے زخمی ہوئے جو کہ قابل مذمت ہے مجلس وحدت مسلمین نے گذشتہ کئی ماہ سے ضلع کرم میں امن کی مخدوش صورتحال کو صوبائی حکومت کی نااہلی قرار دیا ہے اہل تشیع کی تنظیوں کی طرف سے ملک گیر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے شیعہ رہبرکمیٹی کے مطابق پارہ چنار کے بے گناہ شیعہ مسافروں کا خون ریاست کے دامن پر ہے سیکورٹی کے اداروں کی موجودگی میں بے گناہ عورتوں اور بچوں سمیت سو سے زائد مسافروں کی شہادت پر شعیہ برادری سراپا احتجاج ہے جبکہ حکومتی اور ریاستی نااہلی پر ملت تشیع کیطرف سے شدید تشویش کا اظہار کیا گیا – اور دہشت گردوں کے خلاف فوری آپریشن کا مطالبہ کیا گیا پارہ چنار کے محاصرے اور راستوں کی بندش میں شیعہ نسل کشی قرار دیا -اور کہا گیا کہ ہمارے صوبہ کے پی کے کی حکومت اور مشینری اسلام آباد میں احتجاج میں مصروف عمل ہے کے پی کے کا 40 فیصد علاقہ نو گو ایریا بنا ہوا ہے خصوصا”کرم ایجنسی میں گزشتہ سال سے فرقہ واریت کی جنگ جاری ہے..معصوم خواتین اور بچوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے اور جو سیاسی جماعت کے پی کے میں 11 سال سے اقتدار میں ہے وہ کچھ نہیں کر رہی۔ وزیراعلیٰ کے پی کے صوبے میں امن وامان قائم کرنے کے بجائے آنکھ مچولی کا کھیل کھیل رہے ہیں اور انہیں کپتان کے نام پربڑھکیں مارنے سے فرصت نہیں ہے ملک کی سیاسی قیادت کو یہ بات ھمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور سیاسی محاذآرائی کا سب سے زیادہ فائدہ دھشت گرد قوتیں اٹھاتی ہیں 2014ء میں پی ٹی آئی کے طویل دھرنے کے دوران پشاور میں سانحۀ آرمی پبلک سکول رونما ہوا اب جبکہ پی ٹی آئی کی احتجاجی یورش جارہی ہے اور عمران خان کی 24 نومبر کی احتجاجی کال پر کے پی کے کی حکومت احتجاج مہم میں زور و شور سے مصروف تھی صوبہ کے مخدوش حالات اور امن وامان کو نظر انداز کرتے ہوئے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے لئے تمام سرکاری وسائل اور سرکاری مشینری کو استعمال میں لایا جارہا تھا کہ چند روز قبل سانحہ پاراچنار رونما ہوا شیعہ کمیونٹی شاکی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے اتحادی علامہ راجہ ناصر عباس کیا کر رہے ہیں کرم ایجنسی کے لوگوں نے ان کی پارٹی کو ووٹ دیا؟
علامہ راجہ ناصر عباس ،مولانا فضل الرحمٰن سمیت مذھبی سیاسی جماعتوں کی خاموشی بڑی معنی خیز ہے مولانا فضل الرحمٰن کے پی کے کی ایک بڑی مذھبی اور جاندار سیاسی قوت بھی ہیں وہ پاراچنار میں کشیدگی کے خاتمہ میں مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں موصولہ اطلاعات کے مطابق پاراچنار کے ملحقہ اضلاع ہنگو اور اورکزئی سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنماؤں پر مشتمل روایتی جرگہ ممبران نے فریقین میں فوری طور پر جنگ بندی اور مصالحت کے لیے کوششیں شروع کر دی تھیں۔جرگہ ممبران نے از خود ضلعی انتظامی اور پولیس عہدے داروں سمیت متاثرہ علاقوں بوشہرہ اور مالی خیل جاکر فریقین کو جنگ بندی پر راضی کیا تھا مگر بعد میں متحارب فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف فائرنگ شروع کر دی گئ اور امن کی کوششیں بارآور نہ ہو سکیں ایک قبائلی سرکردہ شخصیت ملک عطاء اللہ نے کہا کہ متحارب فریقین میں جنگ و جدل کا یہ سلسلہ زمینی تنازعات پر پچھلے کئی دہائیوں سے جاری ہے جب کہ 2012ء سے تو مسلسل فائرنگ اور قتل و غارت جاری ہے۔ رکن قومی اسمبلی انجنیئر حمید حسین، سابق وفاقی وزیر ساجد طوری اور رکن صوبائی اسمبلی علی ہادی عرفانی نے خونریز جھڑپوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ضلع کرم میں پانی، راستوں، جنگل اور زمین کی ملکیت کے تنازعات پر بار بار معمولی فائرنگ کے واقعات سے ضلع بھر میں جھڑپیں شروع ہو جاتی ہیں جو کہ افسوس ناک ہیں۔
پارا چنار‘ پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقہ جات ”فاٹا‘‘ کی کرم ایجنسی کا ہیڈ کوارٹر ہے، جس کی افغانستان کے اُن تین صوبوں سے سرحد ملتی ہے جو افغان طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ اسی لیے ماضی میں دونوں طرف سے دہشت گرد بآسانی ایک دوسرے کے علاقوں میں آ جا سکتے تھے۔ کرم ایجنسی کا سب سے بڑا مسئلہ فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے گذشتہ ماہ 21 جنوری کا بم دھماکہ اپنی نوعیت کا پہلا یا واحد واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی وہاں تین بڑے دھماکے ہو چکے ہیں، جن میں دسمبر 2015 ء کا ناقابل فراموش بم دھماکہ ہے جس میں درجنوں افراد شہید ہوئے تھے۔ملک میں دھشت گردی کا عفریت پھر سر اٹھا رہا ہے کے پی کے میں بڑھتی ہوئی دھشت گردی انتہائی تشویشناک ہے پی ٹی آئی کی حکومت پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ گذشتہ دور میں تقریبا”چار ہزار سے زائد طالبان کو کے پی کے بسایا گیا جس کے نتائج آج بھگتنا پڑ رہے ہیں زیر زمین دھشت گردی نیٹ ورک منظم ہو رہا ہے کے پی کے میں دھشت گردوں کی سر کوبی کے لئے وفاقی حکومت نے "ضرب عزم” آپریشن کرنے کی منظوری دی لیکن کے پی کے میں پی ٹی آئی کے امین گنڈاپوری کی صوبائی حکومت نے "ضرب عزم” کی بھر پور مخالفت کی اور گرینڈ جرگہ بلا کر آرمی آپریشن کے خلاف مکمل مزاحمت کا اعلان کیا گیا جس کے نتیجے میں کے پی کے کے عوام میں سیکورٹی فورسز کے غلاف نفرت بھرے جذبات کو بھڑکایا گیا پاکستان میں دھشت گرد حملوں میں افغانستان کی سر زمین کو بھی استعمال کی جارہی ہے دھشت گردوں کو لانچ کرنے اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے میں افغانستان کی طالبان حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے جبکہ مقامی انتہا پسند عناصر طالبان اور خوارجین کے لئے سہولت کاری کرتے ہیں دھشت گردی کی آڑ میں فرقہ واریت کی آگ کو بھی بھڑکایا گیااور انتہاپسندی کو فروغ دیا گیا جس کا آغاز 80ء کی دھائی میں افغان وار سے کیا گیااسلام اور پاکستان دشمن قوتوں نے بڑے پیمانے پر شیعہ سنی فسادات کرائے جس کا تسلسل آج بھی جارہی ہے پارا چنار میں جاری مذھبی کشیدگی اسی مذموم ایجنڈے کا حصہ ہے حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ کرم ایجنسی پارا چنار واقعہ افسوس ناک اور قابل مذمت ہے, یہ شیعہ سنی فساد نہیں بلکہ ان قوتوں کی جانب سے ہے جو فساد پھیلا کر ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں کے پی کے کے گورنر اور وزیرِ اعلی اور ارکانِ اسمبلی نے تشویش کا اظہارِ کیا ہے
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی علی امین گنڈاپور اور گورنر فیصل کریم کنڈی نے علیحدہ علیحدہ بیانات میں کرم کے متحارب قبائلیوں کے درمیان مسلح جھڑپوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ضلعی انتظامیہ کو فوری طور پر جنگ بندی اور تنازعات کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں لیکن یہ ھدایات ناکافی ہیں ملکی سالمیت اور قومی یکجہتی کو مقدم رکھا جائے جبکہ سیاست اور احتجاج کرنے کے لئے بہت وقت پڑا ہے سانحہ پاراچنار کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہچانے کے لئے ٹھوس عملی اقدامات کئے جائیں حالات کی سنگینی کے پیش نظر "ضرب عزم آپریشن "ناگزیر ہو چکا ہے