عمران خان کے لیے موجود خطرات کو سنجیدہ لیا جانا چاہیے: خاتون اول پاکستان
آصفہ بھٹو زرداری نے کہا 'عمران خان کی زندگی کو درپیش خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ کوئی بھی شخص جو یہ کہتا ہے کہ اس کی زندگی کو خطرہ ہے تو ہمیں اس کے تحفظ کے لیے ضروری چیزوں کا سنجیدگی سے اہتمام کرنا چاہیے۔
دبئی (نمائندہ وائس آف جرمنی):پاکستان کی خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کو خطرات کے حوالے سے کہا ہے کہ علاج کے لیے مکمل منصفانہ اور جائز سہولتیں ملنی چاہییں۔ وہ پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کے سلسلے میں ‘گلوبل ویمنز فورم دبئی’ کے موقع پر ایک خصوصی انٹرویو میں خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
آصفہ بھٹو زرداری نے کہا ‘عمران خان کی زندگی کو درپیش خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ کوئی بھی شخص جو یہ کہتا ہے کہ اس کی زندگی کو خطرہ ہے تو ہمیں اس کے تحفظ کے لیے ضروری چیزوں کا سنجیدگی سے اہتمام کرنا چاہیے۔
واضح رہے عمران خان سابق وزیر اعظم اور کرکٹ کی دنیا کے ایک سابق سپر سٹار ہیں۔ وہ اگست 2023 سے مسلسل جیل میں ہیں۔ اس دوران حکومت نے ان کے خلاف بیسیوں مقدمات بنائے ہیں۔ ان کی اس قید کے دوران پاکستان تحریک انصاف نے ملک میں احتجاج کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔ آخری احتجاجی کال 24 نومبر کے حوالے سے تھی کہ ‘پی ٹی آئی’ کے کارکن عمران خان کی رہائی کے لیے اسلام آباد پہنچیں۔
ان کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے کے لیے مخلوط حکومت نے غیر معمولی سکیورٹی انتظامات کیے تھے۔ حتیٰ کہ رینجرز اور فوج کی بھی مدد لی تھی۔ اس دوران کئی ناخوشگوار واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے تقریباً ایک ہزار کارکن بشمول بعض اہم رہنماؤں کے جیلوں میں بند ہیں۔ ان میں بڑی تعداد کو پچھلے ہفتے احتجاجی مارچ روکنے کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔
خاتون اول پاکستان نے ایک سوال کے جواب میں کہا ‘بلاشبہ عمران خان جیل میں ہیں لیکن ان کے لیے قانون اور عدالت کے تمام راستے کھلے ہیں۔ وہ عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں اور عدالتوں کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر سکتے ہیں۔’
آصفہ بھٹو زرداری کا اپنا خاندان بھی اگرچہ بار بار اقتدار میں آیا ہے۔ اس کے باوجود خاندان کے کئی افراد کو سیاسی وجوہ کی بنیاد پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حتیٰ کہ جیلیں اور پھانسی بھی برداشت کرنا پڑی۔ اس لیے وہ اس معاملے کی سنگینی کو زیادہ شدت سے محسوس کر سکتی ہیں۔
آصفہ زرداری کا کہنا تھا کہ میرے نانا کو جس طرح ایک آمر نے ایک ایسے جرم میں پھانسی کی سزا دی جو انہوں نے کیا ہی نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا میری والدہ بےنظیر بھٹو کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ لیکن انہیں اپوزیشن کی طرف سے بہت سے مسائل کا سامنا رہا۔ حتیٰ کہ جلا وطنی برداشت کرنا پڑی۔ ان کی اپوزیشن نے ان کی کردار کشی کی اور بالآخر 2007 میں انہیں قتل کر دیا گیا۔
خاتون اول پاکستان کے خاندان کی کردار کشی کرنے والی اپوزیشن اتفاق سے آج کل پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ریاستی اقتدار پر فائز ہے اورماضی کی شدید دشمن سیاسی جماعتیں ایک سے زائد بار پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکمرانی کر چکی ہیں۔ تاہم خاتون اول کا خاندان ان کے ساتھ شریک اقتدار ہونے کے باوجود ماضی کے زخموں اور دکھوں کا ذکر کرتا ہے۔
آصفہ زرداری نے کہا ‘ان کے خاندان کی قربانیوں، خدمات اور جدوجہد سے سب آگاہ ہیں۔’ آصفہ زرداری کے خاندان کے ان مصائب سے گزرنے کے تجربات کی روشنی میں ان کا عمران خان کے حق میں یہ کہنا کہ ان کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے اور ان کی زندگی کو خطرات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، غیرمعمولی طور پر اہم بات ہے۔