![](https://vogurdunews.de/wp-content/uploads/2024/12/PAK-Bangla-Daish-780x470.webp)
(رپورٹ وائس آف جرمنی)بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسلام آباد اور ڈھاکہ کے تعلقات میں نظر آنے والی نئی گرمجوشی اور قربت کئی تجزیہ کاروں کے مطابق جنوبی ایشیائی سیاست میں ایک نیا لیکن مثبت موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی پاکستانی بنگلہ دیشی قربت خطے میں نئی سیاسی صف بندیوں کی راہ ہموار کر سکتی ہے جبکہ علاقائی سطح پر بھارت کے سیاسی وزن کے مقابلے میں یہ دوطرفہ تعاون خطے میں ایک متوازن اور مربوط حکمت عملی کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش تاریخی، سیاسی اور کئی دیگر حوالوں سے ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ کئی برسوں تک وہ ایک ہی ملک تھے۔ اگرچہ بنگلہ دیش نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کی، تاہم دونوں ممالک کے عوام اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ماضی کے بہتر تعلقات دوبارہ بحال ہو سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ایسی مشترکہ پالیسیاں تشکیل دی جا سکتی ہیں، جو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ یہ تبدیلی دونوں ممالک کے عوام کے لیے بھی ایک مثبت پیش رفت ہے، جس سے انہیں کئی متنوع حوالوں سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
محمد یونس کو اسی سال بنگلہ دیشی طلبہ کی قیادت میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف کامیاب ملک گیر مظاہروں کے نتیجے میں بننے والی عبوری حکومت کا سربراہ بنایا گیا تھامحمد یونس کو اسی سال بنگلہ دیشی طلبہ کی قیادت میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف کامیاب ملک گیر مظاہروں کے نتیجے میں بننے والی عبوری حکومت کا سربراہ بنایا گیا تھا
پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کو ہی بھارتی حکومت کی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قریبی باہمی تعلقات کو دوبارہ زندہ کرنا چاہیے۔موجودہ صورت حال 1947ء سے پہلے کے حالات کی یاد دلاتی ہے، جو دو قومی نظریے کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہے۔ بنگلہ دیش کو بھارتی غلبے سے بچنے اور اپنی خود مختاری کے تحفظ کے لیے پاکستان کے ساتھ سکیورٹی تعلقات مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
بنگلہ دیش میں اسی سال عوامی لیگ کے دور اقتدار کے خاتمے کے تناظر میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے اسکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر محمد ندیم مرزا نے بتایا کہ پاکستان نے شیخ حسینہ کے دور کے بعد کے بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تعلقات میں بڑی احتیاط برتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نہیں چاہتا تھا کہ اس کے بنگلہ دیش سے متعلق کسی بھی کم محتاط قدم سے بھارت یا وہاں پناہ لینے پر مجبور ہو جانے والی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو کوئی سیاسی فائدہ پہنچے۔
بنگلہ دیش کو سکیورٹی یا فوجی تعاون کے بجائے اقتصادی شراکت داری کو ترجیح دینا چاہیے۔ ڈھاکہ کو دراصل پاکستان کی وسطی ایشیا تک رسائی کی صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے پاک چین اقتصادی راہداری کے ساتھ اس کی صف بندی میں شامل ہونا چاہیے۔
بنگلہ دیش علاقائی سطح پر تو خطے کے ممالک کی تنظیم سارک کی بحالی کی حمایت کرتا ہے تاہم وہ بھارت کی طرف سے ”سبوتاژ کی کوششوں‘‘ سے آگاہ بھی ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے درمیان شپنگ لائنز کا قیام خطے کی بڑھتی ہوئی خود مختاری کی علامت ہے۔ مزید یہ کہ چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثر و رسوخ اور بیجنگ کے پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے ساتھ تعلقات بھارت کو علاقائی سطح پر تنہا کرتے جا رہے ہیں۔بھارت پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے، مگر موجودہ حالات میں یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو رہیں اور پاکستان کے بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بڑے دوستانہ ہیں۔
بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے وقت پیدا ہونے والی تلخیاں بڑی گہری تھیں اور ان سے بے شمار لوگ متاثر ہوئے تھے۔ تاہم ان تلخیوں کا باقی رہنا دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ ہے، کیونکہ یوں نہ تو ان ممالک کے عوام کو کوئی فائدہ ہو گا، نہ ہی ان کی حکومتوں کو، اور نہ ہی اس پورے خطے کو۔موجودہ نسل ان تلخ واقعات کی ذمہ دار نہیں، ان تلخیوں کو یاد کرنا اب بے معنی ہے۔ دونوں ملکوں کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ اپنی اپنی سماجی اور معاشی حالت بہتر اور اپنے باہمی تعلقات کو مضبوط بنائیں۔
تاریخ کسی بھی بڑے واقعے کے صرف کسی ایک فریق کے دعووں پر مبنی نہیں ہو سکتی اور اس کو مٹانا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ بنگلہ دیشی عوام کا ایک بڑا حصہ مانتا ہے کہ ماضی پر نظریں گاڑے رہنے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھنا ہی وقت کا تقاضا ہے۔ اس لیے کہ فی زمانہ بنگلہ دیش اور بھارت کے مابین کئی طرح کے مسائل ہیں۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کی ایک دوسرے کے ساتھ قربت خطے کے لیے کس طرح معاون ثابت ہو سکتی ہے؟ اسلام آباد اور ڈھاکہ ایک دوسرے کے قدرتی شراکت دار ہیں، جنہوں نے پہلے برطانوی حکمرانی کے خلاف ایک قوم کے طور پر متحد ہو کر جدوجہد کی۔ پھر 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزاد ریاست وجود میں آئی تو پاکستان نے اس کی آزادی اور خود مختاری کو تسلیم کیا۔
ان دونوں ممالک نے جنوبی ایشیا میں ترویج امن کے لیے سارک کے پلیٹ فارم سے بھی مل کر کام کیا ہے اور دونوں ہی اسلامی تعاون کی تنظیم کے رکن بھی ہیں۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو میں شمولیت کے بعد دونوں ہی اقتصادی تعاون کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس سے ان کی مجموعی حالت بہتر ہو گی۔
پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کو ماضی کی کڑواہٹ بھلا کر اقتصادی تعاون اور مشترکہ مفادات کو ترجیح دینا چاہیے۔ انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہا، ”1971ء کے واقعات کو سیاسی بوجھ کے طور پر نہیں بلکہ تعمیری انداز میں تسلیم کرنا دونوں ہی کے لیے صحت مند تعلقات کی بنیاد مہیا کرے گا۔ اقتصادی شراکت داری سے اسلام آباد اور ڈھاکہ کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں، جو باہمی احترام کو بھی فروغ دیں گے اور خطے پر مثبت اثرات کی وجہ بھی بنیں گے۔‘‘