
(سید عاطف ندیم-پاکستان) پاکستان میں گزشتہ پانچ برس کے دوران بچوں سے جنسی تشدد کے 5398 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں یومیہ لگ بھگ تین بچے ریپ کا شکار ہوتے ہیں۔سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی رپورٹ کے مطابق پانچ سال کے عرصے میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے درج شدہ واقعات میں مجموعی طور پر 220 فی صد اضافہ ہوا ہے۔پنجاب سے رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد 3323 ہے جو کہ مجموعی واقعات کا 62 فی صد بنتا ہے۔
اسی طرح خیبرپختونخوا میں بچوں سے جنسی تشدد کے 1360 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ 25.1 فی صد، سندھ میں 458 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ 8.5 فی صد اور بلوچستان سے 257 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ مجموعی واقعات کا پانچ فی صد ہیں۔بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بچوں سے جنسی تشدد کے واقعات میں اضافے سے واضح ہوتا ہے کہ اس حوالے سے مضبوط قوانین اور اس کے نفاذ کے علاوہ عوامی آگاہی کی مہمات کی اشد ضرورت ہے۔
ذرائع کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز کا رپورٹ ہوناقانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اس قسم کے واقعات رپورٹ ہونے سے متاثرین اور ان کے اہلِ خانہ کو انصاف کے حصول میں مدد ملتی ہے۔ پنجاب ملک کی نصف سے زائد آبادی کا مسکن ہے اور بڑی آبادی کے پیش نظر یہ حیرت کی بات نہیں کہ پنجاب میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔پاکستان نے 2027 تک قومی سطح پر بچوں کے تحفظ کی خدمات کو مضبوط کرنے کے عزم کی توثیق کر رکھی ہے۔ اس وعدے میں ضلعی سطح پر بچوں کے تحفظ کے یونٹس کو وسعت دینا، بچوں کے تحفظ کے قوانین کو نافذ کرنا اور بچوں کے حقوق سے ہم آہنگ ورک فورس کی تیاری شامل ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے یہ واقعات وہ ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں اور اس کے علاؤہ ہزاروں ایسے واقعات بھی ہوں گے جو رپورٹ نہیں ہوئے۔سماجی رویوں اور چائلڈ پروٹیکشن کی بہتر سہولیات اور اقدامات نہ ہونے کے سبب بھی واقعات کا اندراج نہیں ہوپاتا۔ پولیس کا رپورٹنگ میکنزم دوسرے صوبوں سے بہتر ہے۔سب سے زیادہ واقعات کے اندراج سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام اور پولیس کا ایسے معاملات کو دیکھنے کا شعور بہتر ہے۔
ضلع لاہور میں بچوں سے زیادتی کے سب سے زیادہ 1176 واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ خیبرپختونخوا کے کم آبادی والے ضلع کولائی پالس کوہستان، جہاں 18 سال سے کم عمر افراد کی آبادی محض ایک لاکھ 58 ہزار ہے، وہاں 84 واقعات رپورٹ ہوئے۔ تشویش ناک اعداد و شمار کے پیش نظر افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کے پاس بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے حوالے سے ابھی تک کوئی نوٹیفائیڈ نیشنل ایکشن پلان نہیں۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز کی نگرانی اور رجحانات کو جاننے کرنے کے لیے ایک مرکزی قومی ڈیٹا بیس کا قیام اہداف کے حصول کے لیے ناگزیر ہے۔
قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کی آئندہ اسٹیٹ آف چلڈرن رپورٹ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تمام مسائل کا جامع جائزہ فراہم کرنے کی کوشش کرے گی اور پالیسی اصلاحات، بچوں کے تحفظ کے فریم ورک کو مضبوط بنانے کے لیے سفارشات پیش کرے گی۔
اسی طرح سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے رپورٹ ہونے والے واقعات نظام میں موجود خلا کی نشاندہی کرتے ہیں، جنہیں حکومتی اداروں اور سول سوسائٹی کے درمیان مربوط کوششوں سے حل کیا جانا چاہیے۔