مشرق وسطیٰ

شام: شامی وزیر اعظم کا قتل، اپنے والد کی موت میں کردار، بشار کے صدر بننے سے قبل کے جرائم

"نفسیاتی توازن کے لیے" ادویات لینے پر مجبور کیا گیا تاکہ وہ "بولنے" کے قابل ہو جائیں

آٹھ دسمبر کو شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو ان کے دور حکومت میں ہونے والے مظالم کی داستانیں سامنے انا شروع ہوگئیں۔ الاسد خاندان کے 50 سال سے زیادہ عرصے کے دور حکومت میں ہونے والے مظالم کی داستانوں کا بڑی حد تک دنیا کو معلوم ہے۔ جس وقت شام کے صدر کی حیثیت سے بشار الاسد کے جرائم کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اسی دوران ان کے ایک عام طور پر کیے گئے جرائم کا تذکرہ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ یاد رہے صدر بننے سے قبل بھی بشار الاسد کے جرائم موجود ہیں۔
ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جو حقائق سامنے آنا شروع ہوئے ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بشار الاسد نے بطور صدر حلف اٹھانے سے پہلے بھی مختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ یہ بات شام کے سابق وزیر اعظم محمود الزعبی کے بیٹے مفلح الزعبی نے ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتائی ۔ شام کے سابق وزیر اعظم محمود الزوبی کی موت کا اعلان حکومت نے سنہ 2000 میں کیا تھا۔ ان کو ختم کرنے میں حکومت کا کردار شکوک و شبھات میں گھرا ہوا تھا۔ اس کی تصدیق جونیئر الزعبی نے اپنے انٹرویو نے کی ہے۔ انہوں نے بتایا اقتدار میں آنے سے قبل بھی بشار الاسد نے جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ بشار الاسد حالت خراب کرنے کے لیے ان کے والد کی دوائیوں میں مداخلت کی تھی۔ بشار الاسد نے سب سے پہلے جرائم کا ارتکاب اپنے ہی والد حافظ الاسد کے خلاف کیا ۔ حافظ الاسد 2000 میں انتقال کر گئے تھے۔ ڈاکٹر مفلح الزعبی کے مطابق 1998 اور 1999 کے درمیان حافظ الاسد کی "صحت خراب ہونے لگی” اور وہ "اعصابی بیماری الزائمر کا شکار تھے۔ جس کے بعد انہیں "نفسیاتی توازن کے لیے” ادویات لینے پر مجبور کیا گیا تاکہ وہ "بولنے” کے قابل ہو جائیں۔ اور اپنے اطراف ہونے والی سرگرمیوں کو سمجھنے کے قابل بھی ہوجائیں۔
شام کے سابق وزیر اعظم کے بیٹے مفلح الزعبی نے حافظ الاسد اور اپنے والد کے درمیان ہونے والی فون کال کا انکشاف کیا جسے اس نے غیر ارادی طور پر اس وقت سنا جب انہوں نے ساتھ والے کمرے میں فون اٹھایا تھا تاکہ ہونے والی بات کو سن سکیں۔ اس گفتگو میں حافظ الاسد اپنی "ذہنی” حالت کے آخری مرحلے میں نمودار ہوئے اور انہوں نے اپنے وزیر اعظم کے ساتھ ایک مسئلے کے بارے میں طویل گفتگو کی۔ حافظ الاسد نے ان سے پوچھا "آپ کون ہیں؟” محمود الزعبی نے کہا: "جناب، میں محمود ہوں، میں آپ کا وزیر اعظم ہوں!” حافظ نے جواب دیا: محمود کون ہے؟ ۔ پھر کہا "میں نے آپ کو کیوں فون کیا میں کس سے بات کر رہا ہوں؟”
مفلح الزعبی نے کہا حافظ الاسد کی حالت مسلسل خراب ہوتی جارہی تھی ۔ ان کی "ذہنی” حالت میں بگاڑ کی خبریں گردش کرتی رہیں۔ مفلح نے بتایا کہ میں نے اپنے والد سے سنا کر بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی دواؤں میں مداخلت کر رہا اور دوائیوں کے دینے کے طریقہ کار میں بھی رد و بدل کر رہا ہے۔
ڈاکٹر مفلح نے انکشاف کیا کہ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی صحت کی حالت کو "خراب کرنے” کے لیے دوائیوں کے وقت اور طریقہ کار میں مداخلت کر رہے تھے تاکہ اپنے لیے جگہ بنا سکیں اور حکومت کی تمام تفصیلات کو اپنے کنٹرول میں کر سکیں۔
شام کے سابق وزیر اعظم محمود اور حافظ الاسد کے درمیان ٹیلی فونک رابطے میں رکاوٹ آتی گئی۔ بعد میں حافظ کی بگڑتی ہوئی صحت بشار الاسد کو شام کے معاملات میں مداخلت کرنے کے قابل بنا رہے تھے۔ ایسی تقرریوں اور سودوں جن کی مخالفت وزیراعظم کر رہے تھے اس میں بھی بشار الاسد کی مداخلت شروع ہوگئی۔
شام کے سابق وزیر اعظم کے بیٹے مفلح نے کہا کہ وہ بشار کے خلاف یہ الزام انتقام لینے کے لیے نہیں لگا رہے ہیں بلکہ یہ اس لیے بتا رہے ہیں کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو صرف سوچ بولتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس انکشاف کے لیے میں نے 24 سال انتظار کیا ہے۔ جو ہوا اس کے بارے میں بات کرنے کے لیے میں میڈیا پر ظاہر ہو رہا ہوں۔
مفلح الزعبی کے مطابق اگرچہ بشار الاسد کا اپنے والد کے خلاف جرم سب سے بڑا سمجھا جاتا ہے لیکن صدر بننے سے پہلے انہوں نے دوسرے جرائم بھی کیے۔ بشار الاسد نے "تیل کے سودوں” میں مداخلت کی تاکہ وہ ان سودوں کا فائدہ اپنے قریبی لوگوں کو دے سکیں۔ مفلح الزعبی نے نشاندہی کی کہ بشار الاسد ایک ایسا شخص تھا جس سے میڈیا کی موجودگی کے بغیر نمٹا نہیں جا سکتا تھا۔ بشار الاسد ہمیشہ دھمکیاں دیتے تھے۔ وہ اپنے والد سے بھی جھوٹ بول رہے تھے۔
مفلح الزعبی نے ملک کی حکمرانی سنبھالنے سے پہلے اپنے والد محمود الزعبی اور بشار الاسد کے درمیان تنازع کی اصل وجوہات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ تیل اور وزراء کی تقرریوں کے معاملے نے دونوں کے درمیان تعلقات میں خرابی پیدا کردی تھی۔ یہ معاملہ آخر کار سابق وزیر اعظم محمود الزعبی کے قتل پر منتج ہوا۔ میرے والد نے خودکشی نہیں کی تھی بلکہ ان کو قتل کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ شام کے سابق وزیر اعظم کو شام کے دارالحکومت کے نواح میں واقع علاقے "دمّر” میں ان کے گھر میں قتل کر دیا گیا۔
ڈاکٹر مفلح الزعبی نے تصدیق کی کہ ایک سینئر افسر نے بھیس بدل کر گھر میں میرے والد سے ملاقات کی تھی اور انہیں جلد از جلد ملک چھوڑنے کی ضرورت کے بارے میں بتایا تھا۔ اس نے شام کے سابق وزیر اعظم محمود سے کہا کہ بشار الاسد تم سے جان چھڑانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ میں تمہیں شام سے نکل جانے کا مشورہ دیتا ہوں۔ پھر محمود کو وزارت عظمی کےعہدے سے ہٹایا گیا اور پھر بعث پارٹی کی قیادت سے برطرف کر دیا گیا۔ اس کے بعد ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی مزید سخت ترین شکلیں سامنے آئیں۔ انہیں سابق گھر سے نکالا گیا اور پھر قتل کردیا گیا۔
واضح رہے اسد حکومت کی طرف سے 2000 میں اپنے وزیر اعظم کی "خودکشی” کے اعلان پر اس وقت شامیوں کی اکثریت نے یقین نہیں کیا تھا۔ ان کی موت ممکنہ طور پر ایک قتل تھا۔ مرحوم محمود الزعبی نے مسلسل 13 سال تک وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہیں حافظ الاسد کی حکومت کی سب سے طاقتور شخصیات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ انہیں بشار الاسد نے ملک کے صدر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں شروع کرنے سے پہلے ہی ختم کر دیا تھا۔
خیال رہے حافظ الاسد اپنے وزیراعظم کے قتل کے ایک ماہ بعد انتقال کر گئے تھے۔ شام کے وزیر اعظم محمود الزعی کا قتل مئی 2000 میں ہوا تھا اور حافظ الاسد کی موت اسی سال جون میں ہوگئی تھی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button