
(سید عاطف ندیم-پاکستان) سی ٹی او لاہور کے ترجمان نے بتایا کہ سی ٹی او لاہورکا بھکاریوں اور انکے گینگ چلانے والوں کے خلاف پریوینشن آف ہیومن ٹریفکنگ ایکٹ 2018 کے تحت بڑا ایکشن لینے کا حکم دیا گیا ہے، انہو نے بتایا کہ سی ٹی او لاہور نےٹریفک سگنلز پر موجود بھکاریوں کو فوری ہٹانے کا حکم دے دیاہے اور چھوٹے بچوں خواتین اور بزرگوں کو اس دھندے میں استعمال کرنے والوں تک بھی رسائی کر کےگرفتار کروائیں گے۔ بھکاری گروہوں اور ان کے سرغنہ کے خلاف ہم متحرک ھو چکے ھیں، سڑکوں کو کلئیر کروائیں گے۔بھکاریوں کے منظم گروہ اور ان کے سرغنہ کے خلاف پریوینشن آف ہیومن ٹریفکنگ ایکٹ 2018 کے تحت کارروائی کریں گے.سی ٹی او لاہور ڈاکٹر اطہر وحید نے کہا کہ ٹریفک سگنلز پر موجود بھکاریوں کے حوالے سے شہری 15 پر کال کر کے شکایت درج کروا سکتے ہیں انکی شکایت پر پولیس فوری ایکشن لے گی اور قانونی کارروائی کی جائے گی۔بھکاریوں کے گروہوں کے خلاف اس ایکشن میں عوام کے بھرپور ساتھ کی ضرورت ھے۔
گداگروں کی ضمانتیں اتنی جلدی کیسے ہو جاتی ہیں؟
حقیقت تو یہ ہے کہ عملاً بھکاریوں پر مقدمہ بنتا نہیں ہے. انہیں اس کے باوجود دفعہ 102 کے تحت اندرکر دیا جاتا ہے لیکن ان کی بھی ضمانت ہو جاتی ہے۔ان سب گداگروں کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جا تا ہے لیکن وہاں سے ان سب کو بری کر دیا جاتاہے۔ ان بھکاریوں کے ساتھ ان کے سہولت کار بھی پکڑے جاتے ہیں جو ان میں سے کسی کا بھائی ، کسی کا والدیا کسی کا چچا ہوتا ہے۔ان بھکاریوں کو گداگری ایکٹ کے تحت کچہری میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس کے بعد یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ انہیں ایک دو روز کے لیے جوڈیشل کرتے ہیں یا ضمانت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ان گداگروں میں جو نشئی گداگر ہوتے ہیں انہیں سوشل ویلفئیر والوں کے سپرد کر دیا جاتا ہےجن کے ری ہیب ہسپتال میں سو بیڈز کی سہولت موجود ہے۔
ان گداگروں میں بچے بھی شامل ہیں پولیس کے پاس ابھی اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ان بچوں کے ڈی این اے کروائیں اور دیکھیں کہ کیا یہ بچے انہی بھکاریوں کے ہیں یا نہیں البتہ ان سب پکڑے جانے والے بھکاریوں کے انگوٹھوں کے نشان ریکارڈ میں رکھے جا تے ہیں۔ جن کے شناختی کارڈ ہیں وہ تو ٹھیک ہیں لیکن جن کے نہیں ہیں ان کے تھمب اپمریشن کو ریکارڈ میں رکھا جا تا ہے تاکہ مستقبل میں اگر یہ پکڑے جائیں تو ہمیں معلوم ہو کہ یہ پہلے بھی پکڑے جاتے رہے ہیں۔
لاہور پولیس کا گداگروں کے خلاف گرینڈ آپریشن جاری ہے۔ ان میں سے بہت سے گداگر ایسے ہیں جو سڑکوں پر معزوری کا ڈھونگ کر کے بھیک مانگتے ہیں۔ ان گداگروں کے پیچھے منظم گروپوں کا نیٹ ورک کام کر رہا ہے جسے توڑا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے بھیک مانگنے والے بچوں کو بھی اپنی تحویل میں لے کر انہیں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو کے حوالے کر دیا گیا ہے۔لاہور پولیس کے ساتھ ساتھ سٹی ٹریفک پولیس کی جانب سے بھی گداگروں کے خلاف مقدمات درج کروائے جاتے ہیں۔
گداگری ایک جرم تو ہے لیکن ضمانت کا قانون یہ کہتا ہے کہ ایسے جرائم جو قابل ضمانت ہوں ان میں ضمانت دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کیس جس میں سزا کے امکانات کم ہوں اس میں بھی ضمانت ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کورٹ نے ایک اصول وضع کیے ہیں کہ اگر ضماانت منظور نہ کرنی ہو تو اس کے کیا اصول ہو سکتے ہیں جیسے، کیا ملزم وہ پراسکیوشن پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟ کیا ملزم ثبوت بدل سکتا ہے؟ کیا ملزم عدالت کی حدود سے باہر جا سکتا ہے؟ جب ان تینوں کا جواب منفی میں ہو تو ضمانت منظور نہ کرنے کی صورت نظر نہیں آتی۔ اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ جرم قابل ضمانت ہو اور اس میں سزا دس برس سے کم ہو ان صورتحال میں ضمانت قوائد کے مطابق ملتی ہے نہ کہ ایک رعایت کے طور پر۔‘
ایک شخص ایک وقت میں کتنے لوگوں کی ضمانت کروا سکتا ہے؟
کسی کی ضمانت کروانے کے لیے آپ کا صاحب ثروت ہونا ضروری ہے۔ اگر ایک ملزم کی ضمانت ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ہو جاتی ہے اور آپ کے پاس دس لاکھ ہیں تو آپ دس لوگوں کی ضمانت ایک وقت میں کروا سکتے ہیں۔’یہ منحصر ہے عدالت کے حکم پر کہ وہ کیا سکیورٹی مانگتی ہے؟ اگر سکیورٹی شخصی ضمانت ہے تواس میں شخصی ضمانت دینے والا شخص عدالت کو بتاتا ہے کہ وہ حکم ملنے پر ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کا مجاز ہو گا اور اگر پیش نہیں کر پائے گا تو اس کے عوض کسی مخصوص رقم جیسے دس لاکھ روپے تک کے سکیورٹی بانڈز بھرے گا۔ شخصی ضمانت پر آپ جتنے چاہے مرضی ملزمان کی ضمانت کروا لیں۔ بھکاریوں کے سہولت کاروں کو پکڑنا اتنا مشکل نہیں اس میں سیف سٹی اتھارٹی کی جانب سے شہر بھر میں لگائے کیمروں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ان میں سے بیشتر خواتین اور مرد بھکاریوں کو علی الصبح گاڑیوں میں بٹھا کر لایا جاتا ہے اور ان کے بھیک مانگنے کے پوائنٹ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سیف سٹی کے کیمروں سے کیا ان سہولت کاروں کی نشاندہی کر کے انہیں پکڑا نہیں جاسکتا؟