
وادیٔ پُر خار میں پھول کھلنے کا وقت !……ناصف اعوان
یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے کہ ہر حکمران نے عوام کو لولی پاپ ہی دیا جبکہ ہر بار انہیں مشکلات سے نجات دلانے کا وعدہ کیا گیا مگر جب اقتدار مل گیا تو سب بھلا دیا
جنہیں موسم خزاں پسند ہے وہ چاہتے ہیں کہ نئی کونپلیں نہ نکلیں پھول پتے نمو دار نہ ہوں اور ان پر رنگ برنگی تتلیاں نہ منڈلائیں مگر فطرت ایسا نہیں چاہتی لہذا یہ خزاں رُت باقی نہیں رہے گی بہار میں بدل جائے گی پھر فضا خوشبوؤں سے رچ بس جائے گی ماحول میں تازگی اور خوشگواریت کا احساس ہوگا لہذا چہروں پر پھیلی ہوئی پژمردگی و اداسی دکھائی نہیں دے گی ۔اسی طرح ہم پُر امید ہیں کہ سیاست کی دنیا میں جو حُزن و ملال کی لہر ابھری ہوئی ہے قہقہوں میں بدل جائے گی ۔اگر چہ دوسروں کے دُکھوں کو محسوس نہ کرنے والے حالت موجود کو اِدھر اُدھر نہیں ہونے دینا چاہتے اور ہر روز اس کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ” ویلے دی اکھ نے“ دُور کہیں کسی روشن چراغ کو دیکھ لیا ہے لہذا روشنی پھیلنے کا آغاز ہو چکا ہے اور اب ہر شے واضح نظر آئے گی۔
یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے کہ ہر حکمران نے عوام کو لولی پاپ ہی دیا جبکہ ہر بار انہیں مشکلات سے نجات دلانے کا وعدہ کیا گیا مگر جب اقتدار مل گیا تو سب بھلا دیا ۔نجانے انہیں عوام سے کیا بیر تھا کیا شکوہ تھااور کیا پریشانی تھی ۔اب جب وہ ستتر برس کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ تم محلوں میں رہ کر زندگی کی ہر ایک آسائش سے لطف اندوز ہو رہے ہو تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں ۔
اس نظام کو اس سوچ کو بدلنے کے لئے کوئی آئے بلکہ آرہا ہے یہ کیسی بات ہے کہ لوگ دُکھ جھیلتے چلے آئیں اور وہ طبقہ جسے اشرافیہ کہتے ہیں ان پر مسلسل حکمرانی کرتا چلا آئے اور اپنے لئے ہر آسانی اور راحت کا سامان پیدا کر لے ۔غریبوں کے مسائل کو بھاری پتھر جان کر نظر انداز کردے اور وہ سوچوں میں گُم ہو جائیں ان سے یہ نہ پوچھ سکیں کہ تم ہی کیوں ریاستی وسائل کے حق دار ہو تم ہی کیوں بار بار اقتدار میں آتے ہو کبھی کوئی کبھی کوئی ٹیکس لگاتے ہو مہنگائیوں کے سائیکلون برپا کرتے ہو اور اس تکلیف دہ نظام کا تحفظ کرتے ہو ؟ مگر اب یہ مشق جاری نہیں رہ سکتی کیونکہ بیداری نے ہر غریب کے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔پہلے وہ جو ہر حکمران سے کسی بہتر کی آس لگاتے تھے اب ان کے ہاتھ سےاُس آس کا دامن چھوٹ چکا ہے لہذا وہ ماضی کی سیاست کو خیر باد کہہ چکے ہیں اور جو ایک نیا چہرہ ابھر کران کے سامنے آیا ہے اس کے پیچھے چل پڑے ہیں ۔
جی ہاں !عمران خان کو عوام کی غالب اکثریت نے اپنا لیڈر مان لیا ہے وہ اس کی ہر ادا پر صدقے واری جا رہے ہیں اس نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ عوامی ہے اس نے پُر آسائش طرز بود و باش سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ لہذا وہ کوئی مطالبہ نہیں کر رہا اور کسی ڈیل کے ذریعے باہر نہیں آنا چاہتا کہ ویسے بھی وہ زنداں میں رہنے کا عادی ہو چکا ہے مگر کب تک آخر کار اسے باہر آنا ہی ہے کیونکہ جب وہ اس نظام کو تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اس کا زنداں میں تادیر رہنا ممکن نہیں ۔
بہر حال عوامی امنگوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ستتر برس بیت گئے اور اشرافیہ اب بھی چاہتی ہے کہ یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھے مگر اس کے لئے وقت سازگار نہیں یہ سماں اور یہ رُت بدل کر رہے گی چاہے کوئی بھی بدلے مگر وہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ سب کچھ جوں کا توں رہے اس مقصد کے لئے وہ اپنے تئیں مختلف النوع حکمت عملیاں اختیار کر رہی ہے اور جاگے ہوئے ذہنوں کو سلانے کی سعی کر رہی ہے اِس میں اُسے کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ خیر اب جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے باضابطہ نئے صدر بن چکے ہیں اور روایتی سیاست و پالیسیوں سے الگ ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں تو ہمارے اہل اختیار ان سےپہلی سی محبت کے خواہاں ہیں مگر انہیں کیوں یہ معلوم نہیں کہ وہ روایتی سیاست کو ترک کرنے جا رہے ہیں اس کا اظہار وہ باقاعدہ کر چکے ہیں وہ دوسرے ملکوں میں بھی ایسا ہی چاہتے ہیں امن و آشتی کی بات کر رہے ہیں عوامی مینڈیٹ کا احترام ان کے پیش نظر ہے اس پر ہمارے کرتا دھرتا کسی گہری سوچ میں پڑ گئے ہیں مگر یہ نظام یہ طرز عمل بدلنا ہی ہے ٹرمپ بدلیں یا نہ بدلیں عوام خود بدلیں گے ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکاہے اس کا ثبوت وہ آٹھ فروری کو دے چکے ہیں اس وقت بھی انتخابات ہو جائیں تو بھی پی ٹی آئی واضح اکثریت سے جیتے گی اس کا ادراک اہل حکومت کو بخوبی ہو گا۔ بات صاف اور سیدھی ہے کہ خان لوگوں کے اذہان کو اپنی مخصوص فکر سےگرفت میں لے چکا ہے لہذا وہ حکومت کی کسی منصوبے اور کسی بیان کو تحسین کی نگاہوں سے نہیں دیکھ رہے ان کا موقف ہے کہ جو حکومت ان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اقتدار میں آئے اس کی کوئی بات بھی قابل قبول نہیں یہی وجہ ہے کہ اس کے چند ایک فلاحی پروگرام بھی ان کی توجہ حاصل نہیں کر پا رہے کہ انہیں تو اس نظام کو بدلنا ہے کہ جس میں مساوات ہو ان کے حقیقی نمائندے انہیں جواب دہ ہوں وہ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم پھر نہ رہے ہوں ان کی دولت میں اضافہ نہ ہوتا ہو اور اگر ہو بھی تو اسے بحق سرکار ضبط کر لیا جائے مگر ایسا بڑی جدوجہد سے ممکن ہو سکے گا کیونکہ یہ نظام بڑا ہی طاقتور ہے عمران خان اس نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش تو رکھتا ہے مگر اسے قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا ہے اور سلاخوں کے پیچھے بیٹھا ہے۔حیرانی ہوتی ہے کہ وہ ابھی تک اپنے نظریے پر ہی قائم ہے جبکہ ماضی میں بہت سے سیاست دان نیویں نیویں ہوکر باہر آگئے مگر اس میں اتنی جرات و ہمت کہاں سے آگئی ہے کہ وہ چودہ برس کی سزا پر بھی مسکرا رہا ہے شاید اسے یہ یقین ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہیں پھر اب تو ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس کی رہائی چاہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے حکومت کو کوئی فون نہیں کیا مگر ان کے بعض حکومتی عہدیدار خان کی رہائی کا کہہ رہے ہیں وہ حکومت کو مجبور کر سکتے ہیں یا نہیں جلد معلوم ہو جائے گا ویسے کچھ کچھ لگ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں ضرور کوئی بات ہو رہی ہو گی کیونکہ ہم قرضے لے کر جوان ہوئے ہیں آئندہ بھی اپنا ان پر ہی انحصار ہے کیونکہ جو دولت چھپائی گئی ہے اسے ظاہر نہیں کرنا چاہتے کہنے والے کہتے ہیں کہ اسی لئے ہی موجودہ فرسودہ اور تکلیف دہ نظام کو بدلا نہیں جا رہا مگر وادئ پُر خار میں زندگی کا پھولوں کی مہک میں گزرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے !