کالمزحیدر جاوید سید

پیکا ایکٹ ترمیمی بل اور حالیہ پنجابی سرائیکی تنازع…..حیدر جاوید سید

آج صبح ہی میرے عزیز جاں دوست حسام درانی (انہیں میں محبت سے پٹھانا کہتا ہوں) نے تین چار فلموں کے لنک شیئر کئے۔ چند دن قبل بھی دو فلموں کے لنک دیئے تھے

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ موضوعات ایک سے زائد ہوتے ہیں بہت کچھ لکھنے کو جی مچلتا ہے لیکن جونہی کاغذ سامنے رکھ کر قلم اٹھایا دل و دماغ میں سناٹا سا چھاگیا۔ وہ کبھی کبھی آج بھی ہے۔ پچھلے کئی گھنٹوں سے کاغذ سامنے دھرا ہے اور قلم بھی موضوعات بھی ہیں ۔ جی یہ چاہ رہاہے کہ لائبریری کا دروازہ بند کرلوں تھوڑی دیر میوزک سنوں۔ ایک آدھ اچھی سی فلم دیکھوں۔ آج صبح ہی میرے عزیز جاں دوست حسام درانی (انہیں میں محبت سے پٹھانا کہتا ہوں) نے تین چار فلموں کے لنک شیئر کئے۔ چند دن قبل بھی دو فلموں کے لنک دیئے تھے۔
پچھلی تین راتیں اس حال میں گزریں کہ ویب سیریز دیکھتا رہا 6 سے 8 قسطوں کی یہ ویب سیریز دیکھتے ہوئے صبح کے چار بج گئے۔ اہلیہ نے ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ کی۔ پھر رسان سے بولیں اس عادت بد سے محفوظ رہیں آپ کا لکھنے پڑھنے کا کام متاثر ہوگا اور مطالعے سے بھی دور ہوجائیں گے۔
کچھ دیر قبل عزیزم سید زوہیب حسن بخاری کو صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ بولے، بھابی کی بات درست ہے۔ تفریح ضروری ہے لیکن شب کے آخری پہر تک جاگنا مطالعے اور صحت کے لئے مُضر ثابت ہوگا۔ بات دونوں کی درست ہے۔
میں ’’پیکا ایکٹ ترمیمی بل مجریہ 2025ء پر کچھ لکھتا چاہتا ہوں لیکن کیا لکھوں؟ یہ قانون ابتدائی طور پر مسلم لیگ (ن) کی 2013ء سے 2018ء والی حکومت کے برسوں میں بنا تھا ہمارے بہت سارے دوستوں نے اس پر لاہور میں پریس کلب کے باہر اور شہر کے مختلف مقامات پر احتجاج بھی کیا۔ تب صحافتی تنظیمیں فعال ہوئیں پریس کلبوں کی سیاست کے فریق بھی بیدار ہوئے۔
آج پی ٹی آئی پیکا ایکٹ ترمیمی بل کی مخالفت میں پیش پیش ہے گزشتہ روز ہم نے پہلے فوجی آمر ایوب خان کے پوتے عمرایوب کے بھاشن سنے۔ ہماری نسل کے محبوب شاعر احمد فراز کے لخت جگر سینیٹر شبلی فراز بھی اس ترمیمی بل پر برہم دیکھائی دیئے۔ شبلی فراز تو اس وقت پریس گیلری میں اظہار یکجہتی کے لئے بھی پہنچے جب پیکا ایکٹ تریمی بل سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا۔
کیا یہ دونوں صاحبان اس امر سے ناواقف ہیں کہ لگ بھگ آٹھ نو برس قبل جب یہ قانون بن رہا تھا (ابتدائی طور پر) تو ان کی جماعت نے قومی اسمبلی و سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں نہ صرف اس کی حمایت کی بلکہ قانون سازی کے عمل میں بھی حمایت (ووٹ) دیا۔
یہی نہیں ہماری محبوب جماعت پیپلزپارٹی بھی تب اس سیاہ قانون کی حامی تھی منظوری کے لئے ووٹ دیا۔ جمہوریت، آزادی اظہار یہاں ایوان اقتدار سے دیس نکالا ملنے پر یاد آتے ہیں اقتدار کے دنوں میں سیاسی جماعتیں ’’فرعون صفتی‘‘ کے مظاہرے کرتی ہیں۔
فوج پر تنقید کا ابتدائی قانون (مزید ترامیم کے ساتھ) بھی مسلم لیگ (ن) کے پچھلے دور میں بنا اس وقت شکر ہے پیپلزپارٹی نے مخالفت کی اس قانون میں مزید ترامیم تحریک انصاف کے دور میں ہوئیں تب (ن) لیگ اور پی پی پی مخالف تھے۔ پی ڈی ایم کے دور میں قوانین مزید سخت بنانے کے عمل کے وقت منتخب ایوانوں میں قبرستانوں سی خاموشی تھی۔
اب پیکا ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور ہوا ہے یہ پی پی پی کے تعاون کے بغیر منظور ہوگیا کیا؟ پی پی پی کو وضاحت کرنا ہوگی۔ سینیٹ میں البتہ بل منظور نہیں ہوسکا بلکہ ارکان کی تجویز پر اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے۔
ڈارون کی تھیوری پر پورا اترنے والے اس بل کی حمایت میں اچھل کود رہے ہیں۔ ہمیں لالی پاپ دیا جارہا ہے کہ یہ قانون تو سوشل میڈیا کو ’’کینڈے‘‘ میں لانے کے لئے ہے۔
گزشتہ روز پارلیمان سے متعدد بل منظور ہوسکے۔ مزید بھی ہوجائیں گے، فوج پر تنقید نہیں ہونی چاہئے البتہ ایجنسیوں کو حق ہے کہ وہ ففتھ جنریشن وار کے نام پر سوشل میڈیا کے لئے جتھے بناکر میدان میں اتاریں دیں ۔ واہ کیسی مساوات پر مبنی سوچ ہے۔
چند برس قبل ان سطور میں عرض کیا تھا ’’ایجنسیوں نے جتنی خطیر رقم جمہوریت، سیاستدانوں، سیاسی جماعتوں کو رسوا کرنے اور غیرریاستی ایکٹروں کی تربیت پر نصف صدی کے دوران خرچ کی یہی رقم اگر سماجی مساوات پر خرچ کی جاتی تو مثبت نتائج مل سکتے تھے‘‘۔
تب ہمارے بہت سارے دوست جو آج عمران خان سے امیدیں لگائے بیٹھے مخالفین و ناقدین عمران کو صبح شام کوسنے دیتے ہیں ہمیں سمجھایا کرتے تھے
’’اگر فوج نہ ہوتی تو ہندو بنیا پاکستان کو نگل گیا ہوتا تمیاری مائوں بہنوں کی عزتیں خطرے میں پڑجاتیں‘‘۔
اس وقت ان کے تین نجات دہندہ تھے ” اللہ امریکہ اور آرمی ” یہ تینوں آج بھی ان کے حقیقی نجات دہندہ ہیں بس درشنی فیشنی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست چل رہی ہے ،
بات کچھ نہیں خاصی دور نکل گئی عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سکیورٹی اسٹیٹ کی پابند طبقاتی جمہوریت کا تین نکاتی منشور ہوتا ہے۔ اولاً نظریاتی جغرافیہ، ثانیاً ایک عدد ازلی و ابدی دشمن، ثالثاً
"ملا ملٹری سرمایہ دار و سیاست کار الائنس” ،
ملٹری اپنی جگہ موجود رہتی ہے ملا، سرمایہ دار اور سیاست کار بدلتے رہتے ہیں آپ کہہ سکتے ہیں تین ایکٹ کے اس ڈرامے کی چھہتر برسوں سے کھڑکی توڑ نمائش جاری ہے بس ایکٹرز تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ صرف سوشل میڈیا نہیں الیکٹرانک میڈیا بھی اندھے کےپاوں کے نیچے آیا بٹیرا ہی ہے۔ مشرف دور کی قابض اسٹیبلشمنٹ جمہوریت اور آزادی اظہار کے لئے الیکٹرانک میڈیا نہیں لائی تھی بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت الیکٹرانک میڈیا لایا گیا۔ بہت سارے چرب زبانوں کو باقاعدہ تربیت دی گئی۔
جمہوریت، سیاسی عمل اور سیاستدانوں کو چیخ چیخ کر گالی دینے اور کرپشن کہانیاں سنانے کی کھلی آزادی رہی ، آئی ایس آئی کے لئے ساڑھے سات ہزار روپے ماہوار پر مخبری کرنے ولے "گجب کرپشن کی عجب کہانیاں ” سناتے رہے۔
پابند طبقاتی جمہویرت میں سیاپا فروشوں کا سکہ چلنے لگا اور پھر جب ’’ماحول‘‘ بن گیا تو خالص ذاتی جماعت بنانے کا ڈول ڈالا گیا یہ ایک لمبی داستان ہے
تکرار کے ساتھ عرض کرتا رہا ہوں اور یہ بھی کہ اسٹیبلشمنٹ نے جتنے تجربے کئے الحمدللہ سب اس کے گلے پڑے۔ ذاتی جماعت والے تجربے نے تو اس کا ’’ککھ‘‘ نہیں رکھا۔
دوسرے جس موضوع پر لکھنا چاہتا ہوں وہ گزشتہ چند دنوں کے دوران کچھ بدتہذیب زبان دراز اور بیسوا مزاج لوگوں کا سرائیکی وسیب کی صوبہ تحریک سرائیکی قومی شناخت پر سوقیانے حملے ہیں ، یہ درست ہے کہ جواب آں غزل میں کچھ نثری شاعروں نے بھی سخت کلامی کی۔ لیکن جب کسی قوم کا نمائندہ بن کر کوئی دوسری قوم اور اس کی قومی شناخت کو گالی دے گا تو جواب میں ’’ذکرواذکار‘‘ کی محفلیں تو نہیں سجیں گی۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جغرافیہ بنتے ٹوٹتے رہنے کے عمل سے کسی قوم کی قدیم لسانی تاریخی تہذیبی و جغرافیائی شناخت تبدیل نہیں ہوجاتی۔
اگر سرائیکی قومی شناخت اور زبان پر گالم گلوچ کرنے والوں کی بات لمحہ بھر کے لئے مان بھی لی جائے تو یہ سوال اہم ہوگا کہ آج کے پنجاب کے قبضہ قدرت میں موجود سرائیکی بولنے ولے اضلاع کب پنجاب کا حصہ بنے تھے؟ یہ بھی کہ خود پنجاب کی اپنی اکائی کے طور پر شناخت کتنی قدیم ہے؟
مثلاً ملتان پر رنجیت سنگھ کے دور میں قبضہ ہوا کچھ عرصہ خودمختاری (صوبائی) قائم رہی پھر یہ ختم کردی گئی۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک لارڈ کرزن نے پچھلی صدی میں بننے والے نئے صوبے این ڈبلیو ایف پی ’’شمال مغربی سرحدی صوبہ‘‘ میں شامل کرائے۔
ایک سے زائد بار ان سطور میں سیمیناروں مذاکروں اور مکالمے کی نشستوں میں عرض کرچکا ہوں کہ نفرتوں کا بیوپار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی بجائے مکالمے کو رواج دیجئے ۔
یہاں پناہ گیر کون ہے؟ ذرا تاریخ کے اوراق الٹیئے کون کون باہر سے آیا ہزار دو ہزار برس قبل چند سو سال قبل یا پھر 1947ء کے بٹوارے میں؟
بنیادی بات یہی ہے کہ کسی بھی علاقے کے لوگوں کی اپنی تہذیبی، تمدنی، لسانی تاریخی شناخت پر گواہی ہی درست ہوگی ان پر نئی اجنبی شناخت مسلط کرنے سے بگاڑ پیدا ہوگا۔ ویسا بگاڑ جیسا دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان نے پیدا کیا یا مسلم قومیت نے۔
اب سوال یہ ہے کہ اسلام کے اپنے آبائی دیس ( حجاز مقدس ) میں مسلم قومیت کا تصور کیوں نہیں؟
چلیں اس بحث میں نہیں پڑتے باردیگر عرض کرتے ہیں کہ جو چند لوگ خود کو پنجابی قوم کا نمائندہ بتاکر گالم گلوچ میں مصروف ہیں یہ اگر پنجابیوں کے خیرخوار ہیں تو انہیں مبارک ہوں لیکن یہ ضرور سمجھ لیجئے کہ اگر خاکم بدہن ان بوزنوں کی لگائی بجھائی سے آگ لگی تو صرف سرائیکی لوگوں کے گھر نہیں جلیں گے
کیونکہ آگ کسی کی دوست نہیں ہوتی۔ آخری بات یہ ہے کہ مکالمے کو رواج دے کر مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ دوسری صورت میں جو نقصان ہوگا اس کے بارےمیں اگر اب عرض کردوں تو کہیں گے جواباً جذباتی بات کررہا ہے،
کم لکھے کو بہت سمجھ لیجئے اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button