سوالات، اعتراضات اور طعنے…..حیدر جاوید سید
سرائیکی وسیب کو جنوبی پنجاب کہنے کا مطلب وسیب کے لوگوں کی توہین ہے براہ کرم ہماری شناخت پر جنوبی پنجاب کی توہین آمیز پھبتی نہ کسیں
پیکا آرڈیننس ترمیمی بل مجریہ 2025ء پر اپنی بات تفصیل سے کہہ لکھ چکا۔ مزید لکھنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن گزشتہ کالموں اور وی لاگ سمیت سوشل میڈیا پر کی گئی ایک پوسٹ کے جواب میں کچھ عرض کرنا ازبس ضروری تھا ، پی پی پی کے دوستوں کے چند سوالات ہیں۔ ایک دو اعتراضات بھی ہیں اور طعنے بھی۔ ریکارڈ کی درستگی کے لئے اپنی معروضات پیش کررہا ہوں۔
یہ کہنا کہ میں سرائیکی قوم پرستوں کو سپورٹ کرتا ہوں اس لئے پی پی پی پر تنقید کی یا یہ کہ چونکہ میرا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے (انہوں نے جنوبی پنجاب لکھا) اس لفظ جنوبی پنجاب کے حوالے سے میں اپنی رائے پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے چند برس قبل گوش گزار کرچکا جب ملتان کے بلاول ہائوس میں منعقدہ ایک تقریب میں مجھے بھی رائے کے اظہار کے لئے بلایا گیا تھا۔
میں نے عرض کیا تھا سرائیکی وسیب کو جنوبی پنجاب کہنے کا مطلب وسیب کے لوگوں کی توہین ہے براہ کرم ہماری شناخت پر جنوبی پنجاب کی توہین آمیز پھبتی نہ کسیں۔ ہماری درخواست ہے کہ پی پی پی جنوبی پنجاب یونٹ کا نام پی پی پی سرائیکی وسیب رکھیں۔ بلاول بھٹو نے اس کا مثبت جواب دیا۔ اپنی تقریر میں وسیب ہی کہا اس سے اگلے دن ڈیرہ غازی خان میں بھی انہوں نے وسیب کو صوبہ بنانے کی بات کی۔
اسی تقریب میں یہ شکوہ بھی کیا تھا کہ پی پی پی ایک جمہوری لبرل جماعت ہے مگر اس کے بعض نمایاں کارکن سوشل میڈیا پر اسے ایک مذہبی جماعت بناکر پیش کرتے ہوئے ایسے دلائل دیتے ہیں جن سے دوسری مذہبی برادریوں کی دل آزادی ہوتی ہے۔
اس بات پر ایک مقامی مولوی نے تقریب کے اختتام پر مجھ پر منکر ختم نبوتؐ کا الزام لگاتے ہوئے عزیزم میر احمد کامران مگسی سے کہا ’’تمہارے دوست کو ختم نبوتؐ سے کیا تکلیف ہے ” ۔ یہ تلخی گو ختم ہوگئی میں نے جو کہا وہ ریکارڈ پر ہے۔
میں نے ہمیشہ کہا کہ میں ملتانی سرائیکی ہوں یہی میری شناخت ہے۔ ہمیشہ یہ بھی عرض کیا کہ اے این پی، پیپلزپارٹی اور قوم پرستوں (سرائیکی قوم پرستوں) کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہوں۔ اس میں برائی کیا ہے اور یہ کیا بات ہوئی کہ ’’ہم بات کریں تو کہا جائے کہ وسطی پنجاب کی پیپلزپارٹی پر تنقید جنوبی پنجاب سے ہی ہوتی آئی ہے‘‘۔
پیپلزپارٹی پر تنقید کیوں اور اس سے امید بھی کیوں؟
دوسروں کا معاملہ ان کے ساتھ ہے میری رائے بہت واضح ہے پی پی پی ایک سنٹرل لبرل جمہوری جماعت ہے آپ جس جماعت کےلئے نرم گوشہ رکھتے ہوں اس پر تنقید بھی کرتے ہیں اور اسی سے امید بھی رکھتے ہیں ۔ ایک سے زائد مرتبہ ان سطور میں اپنی پہلی محبت اے این پی پر کڑی تنقید کی اسکے جواب میں اے این پی والوں نے تو کبھی نہیں کہا کہ ایک سرائیکی وسیب کا آدمی ہماری جماعت پر کیوں تنقید کررہا ہے۔
سرائیکی قوم پرستوں پر بھی اپنے کالموں میں کڑی تنقید کرتا رہتا ہوں۔ ہمارے ہاں عجیب بات یہ ہے کہ اکثر پڑھنے والے میری رائے پر دلیل سے اختلاف کی بجائے مجھے سرائیکی شیعہ یا پی پی پی کا حامی ہونے کا طعنہ دے مارتے ہیں۔ اس طعنے بازی کا مقصد لوگوں کی توجہ اصل بات سے ہٹانا ہوتا ہے۔
میں نے قمر زمان کائرہ کی اس بات کا کہ ’’زرداری نے کرپشن کی ہے تو میں کیوں دفاع کروں‘‘ اپنی تحریر میں ذکر کیا پی پی پی کے دوستوں نے کہا ثبوت دو، لنک دو، میرے جواب پر ایک صاحب نے تمسخر بھری پوسٹ لگائی جس پر پی پی پی کے دوست بھونڈے انداز میں جُت گئے۔
2013ء میں پی پی پی کی حکومت ختم ہوئی اور مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ جو پہلے ہی پی پی پی کے لتے لئے ہوئے عجب کرپشن کی غضب کہانیاں پھینک رہا تھا اس نے اپنی چھریاں مزید تیز کرلیں۔ انہی برسوں میں ایک دن کاشف عباسی کے پروگرام میں قمر زمان کائرہ بھی تھے کاشف عباسی نے حسب عادت پی پی پی اور آصف علی زرداری کی ناکامیوں، ان کے دور کی کرپشن اور چند لایعنی باتیں کیں۔ قمر زمان کائرہ کا جواب تھا "آصف علی زرداری نے کرپشن کی ہے تو میں دفاع کیوں کروں میں سیاسی کارکن ہوں ”
لگ بھگ 9 برس بعد کائرہ کی بات کا حوالہ دے کر میں مجرم اور سرائیکی ہوگیا میں نے یہی کہا تھا کہ میں عامل صحافی ہوں غیرذمہ دار شخص نہیں کہ غلط بات کردوں۔
طنز ہوا ’’جواب اور ثبوت دینے کی بجائے کہتا ہے کہ میں کوئی غیرذمہ دار آدمی ہوں‘‘۔
مجھے غلط فہمی تھی کہ پی پی پی ایک سنٹرل لبرل جمہوری جماعت ہے اس لئے اپنی توقع اور امید کا ذکر کیا ، نہیں معلوم تھا کہ پی پی پی بھی ایک مذہبی عقیدہ ہے اور عقیدے سے اختلاف جرم ہوتاہے۔ پی پی پی پر جو لوگ تنقید کرتے ہیں وہ اپنا جواب خود دیں ان کے ساتھ اس قلم مزدور کو رگید کر مسرت ملتی ہے تو لگے رہیں۔
ویسے ثبوت اور لنک طلب کرنے والے پی پی پی کے دوست ذرا ہمت کرکے آصف علی زرداری سے ہی پوچھ لیں کہ قمر زمان کائرہ کو وسطی پنجاب کی صدارت اور چودھری منظور کو جنرل سیکرٹری کے عہدے سے ہٹاکر نئے عہدیداران کا تقرر کیوں کیا گیا تھا۔ واحد وجہ یہی تھی کہ پی پی پی وسطی پنجاب یارٹی قیادت پر بھونڈے الزامات کا جواب دینے اور دفاع کرنے میں ناکام رہی یہی نہیں بلکہ اس دور میں وسطی پنجاب میں پی پی پی کی عوامی حمایت میں مسلسل کمی آتی گئی۔
عوامی حمایت میں کیوں آئی اس کمی پر خود وسطنی پنجاب کے جیالے کیا کہتے تھے اور اب بھی ان کی کیا رائے ہے اس پر بحث کی ضرورت نہیں۔
پی پی پی سے اگر کوئی امید رکھتا ہے تو یہ بری بات نہیں۔ میڈیا میں اس کے بدترین مخالف اور وہ بھی جن کے منہ کو بواسیر ہے اگر پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے معاملے پر صدر زرداری سے کوئی امید رکھے ہوئے تھے تو یہ امید گالی ہرگز نہیں بلکہ اعتراف تھا کہ ہم غلط تھے اور سچ یہی ہے کہ پی پی پی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا ۔
پی پی پی کے دوستوں کو سمجھنا چاہیے کہ کسی مشکل وقت اور مسئلہ میں اگراس کے بدترین مخالف یا مخالفین کے راتب خور بھی پی پی پی کو آخری امید سمجھ بیٹھتے ہیں تو یہ پیپلزپارٹی کی جیت ہے شکست نہیں ۔
عجیب بات نہیں کہ آئی جے آئی کے میڈیا سیل کے کرتا دھرتا حسین حقانی کو آپ وفاقی سیکرٹری اطلاعات سری لنکا اور امریکہ میں سفیر بنادیتے ہیں مگر پیشانی پر پسینہ تک نہیں آتا۔ میمو گیٹ سکینڈل میں نوازشریف کالا کوٹ پہن کر گئے۔ انہوں نے پی سی اور ججز والے معاملے میں میثاق جمہوریت سے انحراف کیا مگر پی ڈی ایم اور اب بھی وہ پی پی پی کا اتحادی ہے۔
یعنی مالکوں سے دوستی اور راتب خوروں سے دشمنی یہ کوئی اصول نہ ہوا۔
پی پی پی کے چند دوستوں نے میرے چند دوستوں کا نام لے کر کہا ہم آپ کی عزت ان کی وجہ سے کرتے ہیں ، حضور بالکل نہ کریں میری عزت میں نے آپ نے عزت کی خیرات کب مانگی؟ میرے وہ دوست پی پی پی کے فعال کارکن ہیں وہ مجھے اور میں انہیں قبول ہوں تو یہ سماجی تعلق داری ہے کسی پر جبر نہیں کہ وہ مجھ سے سماجی تعلق داری نبھائے۔
میری دانست میں جس طرح سیاست میں دوستیاں اور اختلاف مستقل نہیں ہوتے اسی طرح صحافت کے شعبہ میں موجود راتب خوروں کے معاملے کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
میرے سرائیکی دوست اور بالخصوص قوم پرست اکثر مجھے یہ طعنہ دیتے ہیں کہ ’’تم پیپلزپارٹی کی حمایت کرتے ہو‘‘۔ ان سے بھی ہمیشہ یہی عرض کرتا ہوں سرائیکی ہونا میری شناخت ہے میں ایک قلم مزدور ہوں درست اور غلط اپنی فہم کی روشنی میں طے کرتا ہوں۔
سرائیکی وسیب کے لئے پی پی پی نے جتنا کیا وہ کافی ہے اس سے آگے وسیب کے لوگوں اور قوم پرستوں کو جدوجہد کرنا ہوگی۔ پی پی پی یا کوئی جماعت جو وفاقی سیاست کرتی ہوں سرائیکی صوبہ پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کرے گی ہم سرائیکی کیوں سمجھتے ہیں اگر پی پی پی نے یہ نہ کیا تو بس ہماری ’’کُٹی‘‘
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ وفاقی سیاست کرنے والی کوئی جماعت ایک خاص مقام سے آگے نہیں جاسکتی۔ جن سرائیکی قوم پرستوں نے 2018ء میں تحریک انصاف کو 100 دن میں صوبہ کےنام پر ووٹ دیئے تھے ہم نے تو ان سے بھی عرض کیا تھا 100 دن میں روڈ میپ لکھا ہے صوبہ نہیں ، لیکن تب وہ ہوا کہ گھوڑے پر سوار تھے
اس کا کیا کیجئے کہ انہی قوم پرستوں کی اکثریت نے دھوکہ دینے والی تحریک انصاف کو جوش و جذبے کے ساتھ 2024ء کے انتخابات میں بھی ووٹ دیئے لیکن پی پی پی ان کے نزدیک قابل گردن زدنی ہے۔
ہمیں مان لیناچاہیے کہ ہم سبھی اپنی ذات اورانا کے خول سے باہر نکل کر دیکھنے سمجھنے کو تیار نہیں۔ آخری بات میں بس ایک قلم مزدور ہوں میرے گھر کا چولہا اسی قلم مزدوری اور اہلیہ کی پنشن سے چلتا ہے۔ مجھے قلم مزدور ہونے پر کوئی شرمندگی نہیں بلکہ آج بھی اس پہ فخر ہے۔ کسی سیاسی مذہبی یا قوم پرست جماعت کا میڈیا منیجر ہوں نہ تنخواہ دار طبلچی۔ اپنی فہم کے مطابق لکھتا بولتا ہوں۔
اس کالم کو وضاحت نہ سمجھ لیجئے گا ، میں وضاحت کیوں کروں ا ور کس لئے ؟ یہ محض ریکارڈ کی درستگی کیلئے ہے ،
اے این پی، پیپلز پارٹی اور سرائیکی قوم پرستوں کے لئے میری محبت میں کمی نہیں آسکتی میں ان کا جائز دفاع اور ان پر جائز تنقید بھی کروں گا۔
پی پی پی سمیت سبھی اس بات سے آگاہ ہیں کہ سکیورٹی سٹیٹ میں سیاست کی حدود کیا ہیں اور راستہ کیسے نکالنا ہے۔ اس لئے دوستو!الفاظ کے چنائو میں احتیاط کیا کرو سیاسی کارکنوں سا انداز اپنائو مجاوروں سا نہیں۔