
قرارداد لاھور قیام پاکستان کا پیش خیمہ ۔۔!!پیر مشتاق رضوی
ہندوستان میں اپنے قدم جمانا شروع کر دیئے بالاخر 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد سامراج انگریز نے مسلمانوں سے اقتدار چھین لیا اور پورے ہندوستان پر قابض ہو گئے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی آمد سے قبل ہندوستان مختلف راجدھانیوں اور چھوٹی بڑی بے شمار ریاستوں میں تقسیم تھا مسلم حکمرانوں نے ہندوستان کو یکجا کیا اور ایک متحدہ ہندوستان کی بنیاد ڈالی شاہجہاں کے دور میں انگریز تجارت کی غرض سے ہندوستان میں آئے انگریزوں نے ہندوستان میں روز اول سے سازشوں اور ریشہ دوانیاں کا جال بچھانا شروع کیا انگریزوں نے غداروں اور ھندؤوں کو اپنے ساتھ ملا کر ہندوستان میں اپنے قدم جمانا شروع کر دیئے بالاخر 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد سامراج انگریز نے مسلمانوں سے اقتدار چھین لیا اور پورے ہندوستان پر قابض ہو گئے ہندوستان پر عملا” تاج برطانیہ کا راج قائم کر دیا گیا اسی دوران مسلمانوں کو مکمل طور پر مغلوب کرنے کے لیے ہر طرح کے ظلم و ستم کو روا رکھا گیا ہندوستان میں مسلمانوں کے مشرقی نظام معاشرت ،سیاست تہذیب و ثقافت تعلیمی نظام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیا مسلمانوں کی زندگیوں کو غلاموں سے بھی بدتر بنا دیا گیا مسلمانوں سے ان کی شناخت چھین لی گئی اور انہیں ذلت و رسوائی کی پستیوں میں دھکیل دیا گیا پورے ہندوستان میں انگریزی سامراجی نظام کو رائج کیا گیا اور رواج بھی دیا گیا اس دوران مسلمانوں کے ایک مصلح سر سید احمد خان اٹھے وہ انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت اور باہمی قبولیت کی راہ ہموار کرنے میں خاصے کامیاب ہوئے علی گڑھ کی ہمہ جہت تاریخی تحریک شروع کی اولا” مسلمانوں میں غلامی سے نکلنے کے جذبہ کو اجاگر کیامسلمانوں کے معاشرہ کی تعمیر نوشروع کی مسلمانوں کو پستی سے نکالنے اور اقوام عالم کا مقابلہ کرنے کے لیے انہیں انگریزی اور مغربی تعلیم کی طرف راغب کیا علی گڑھ کے پلیٹ فارم سے مشنری جذبے کے تحت ادبی تعلیمی سماجی اور سیاسی تحاریک کو مؤثر انداز سے شروع کیا گیا سر سید احمد خان نے مسلمانوں کی سرکردہ قیادت کو منظم کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی مغربی نظام حکومت میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ائینی اور قانونی جدوجہد بھی شروع کی سر سید احمدخان کی وفات کے بعد ان کے جانشینوں نے ان کے مشن کو اگے بڑھایا محمدن ایجوکیشنل کانفرنسز کے سالانہ انعقاد کے نتیجے میں 1906ء میں ڈھاکہ میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ قائم کی گئی اس سے قبل 1885ء میں ایک انگریز مسٹر اے او ھیوم نے ہندوؤں کی سیاسی جماعت آل انڈیا نیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی جس کا مقصد برصغیر پاک و ہند کے ہندوؤں کو سیاسی طور پر متحد اور منظم کرنا اور ہندوؤں کا غلبہ قائم کر کے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے مغلوب بنانا تھا اس کا واضح ثبوت ہندوؤں کی طرف سے تقسیم بنگال کی مخالفت کرنا تھا تاکہ بنگال کے مسلمان خوشحال نہ ہو سکیں اور وہ بدستور ہندو ساہوکاروں کے غلام بنے رہیں صاحب بصیرت سر سید احمد خان نے برصغیر کے مسلمانوں کو کانگریس میں شامل ہونے سے روکا تھا آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام کا مقصد تاج برطانیہ کی عملداری میں رہتے ہوئے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کو قائم رکھنا اور ہندوستان کی دیگر اقوام کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر بنانا تھا انگریزی پارلیمانی نظام میں ہندو اکثریت میں تھے اور ‘ہندو توا” نے مسلمانوں کو اپنا غلام بنانے کے لیے ہر حربہ اور سازش اختیار کی جبکہ سامراج انگریز نے صدیوں ساتھ رہنے والے ہندو اور مسلم کے درمیان نفرت اور تقسیم کا بیج بویا اور ازلی دشمنی کی خلیج حائل کر دی 1906ء سے لے کر 1930ء تک مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے مسلمان قائدین سرگرم عمل رہے ابتدا” قائد اعظم بھی ہندو مسلم اتحاد سفیر بنے قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے لکھنو میں مسلم لیگ اور کانگریس کا مشترکہ اجلاس ہوا اس دوران "میثاق لکھنو”میں پہلی بار مسلمانوں کے الگ وجود اور مسلمانوں کے جداگانہ حق انتخاب کو بھی تسلیم کیا لیکن 1928ھ میں نہرو رپورٹ میں کانگزیس نے نہ صرف مسلمانوں کے وجود کو بلکہ جداگانہ حق انتخاب کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا
اس کے جواب میں قائد اعظم نے اپنے مشہور 14 نکات پیش کیے قائد اعظم کے تاریخی 14 نکات مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی دیگر اقلیتوں کےبقاء اور مکمل تحفظ کا جامع لیگل فریم ورک آرڈر تھے ہندؤوں کی مسلسل اور مستقل ہٹ دھرمی ،ازلی دشمنی اور تعصب کی وجہ سے قائد اعظم نے کانگریس سے اپنی راہیں جدا کر لیں اور مسلم لیگ پر ہی مکمل توجہ دی انہوں نے مسلمانوں کے حقوق کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی 1930ء تک بر صغیر پاک و ہند کے سیاسی منظر نامہ پر تقسیم ہند کا باقاعدہ کوئی تصور موجود نہ تھا اور مسلمان اپنی قومی بقاء اور اپنےحقوق کے تحفظ کے لیے ایک وفاق میں رہتے ہوئے جداگانہ حق انتخاب کا مطالبہ کرتے رہے 1930ء میں پاکستان علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مشہور خطبہ الہ آباد میں” تصور پاکستان” پیش کیا 1930ء سے 1940 تک ہندوستان کے سیاسی حالات میں بڑا اتار چڑھاؤ آتا رہا اور ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے لیے مختلف آئینی اور قانونی اصلاحات اور منصوبوں پر غور خوض ہوتا رہا مسلمانان برصغیر "ہندو توا”کے شدید ترین تعصب اور دشمنی کا نشانہ بنتے رہے لیکن برصغیر کی مسلمان "نشاۀالثانیہ” کے احیاء کے لیے قربانیاں دیتے رہے 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں بر صغیر کے مسلمانوں نے متفقہ طور پر ‘قرارداد لاہور ” منظور کی اور ایک الگ آزاد مسلم ریاست کے قیام کا متفقہ فیصلہ کیا گیا کی شاعرمشرق علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے "تصور پاکستان” کو تعبیر دینے کے لیے مسلمانان برصغیر نے عزم مصمم اختیار کیا
23 مارچ 1940 ء کو قائد اعظمؒ کی زیر صدارت منظور کی گئی قرارداد پاکستان نے تحریک پاکستان میں نئی روح پھونک دی تھی جس سے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا۔ ایک ایسا ملک جہاں وہ آزادی، مساوات اور خودمختاری کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
ہندو "قرارداد لاہور” کو "قرارداد پاکستان” کہہ کر مسلمانوں کا مذاق اڑانے لگے لیکن ہندوؤں کے اس مذاق کو قدرت نے حقیقت میں بدل دیا یوں یہ "قرارداد لاہور” بعدازاں تاریخ میں” قرارداد پاکستان” کے نام سے مشہور ہو گئی 1940ء سے 1947ء تک برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی
بےمثال ولولہ انگیز قیادت میں وقت ہے قیام پاکستان کی باقاعدہ تحریک شروع کر دی قائد اعظم نے پاکستان کے حصول کے لیے کوئی عسکری جدوجہد یا خونی جنگ نہ لڑی، مسلمانوں نے کوئی قتل و غارت کی اور نہ ہی اس کے لیے اسلحہ اٹھایا بلکہ قائد اعظم نے پاکستان حاصل کرنے کے لیے آئینی اور قانونی جنگ لڑی سات سال کے قلیل عرصے میں قائد اعظم کی عظیم جمہوری جدوجہد نتیجہ میں دنیا کا نقشہ بدل گیا ووٹ کی طاقت سے 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی قائد اعظم نے واضح فرما دیا تھا کہ پاکستان کا نظام حکومت قرآن و سنت پر مبنی ہوگا پاکستان اللہ تعالی کا وہ عظیم انعام ہے جو رمضان المبارک کی 27 ویں مقدس شب میں برصغیر کے مسلمانوں کو عطا کیا گیا پاکستان حاصل کرنے کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان و مال کی لازوال قربانیاں پیش کیں قائد اعظم نے نہ صرف برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلائی بلکہ دنیا بھر میں سامراجی نوبادیاتی نظام میں جکڑے ہوئے مسلم علاقوں میں تحریک آزادی کی روح پھونکی اور محکوم قوموں کو آزادی کا ولولہ عطا کیا قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے پاکستان قائم کر کے دنیاۓ اسلام کو جغرافیائی قیادت فراہم کی قائد اعظم کا فرمان ہے کہ ” دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی،پاکستان تاقیامت رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے”
23 مارچ یومِ پاکستان وہ تاریخی دن ہے جب مسلمانوں نے اپنی الگ شناخت اور آزاد وطن کے حصول کا مصمم فیصلہ کیا، یہ دن درحقیقت وہ پیغام پاکستان ہے جو ہمیں اپنے بزرگوں کی جدو جہد اور قربانیوں کی یاد دلاتا ہے
اگر خدانخواستہ پاکستان آزاد نہ ہوتا تو ہم لوگ اب بھی ہندوؤں کے غلام ہوتے
یوم پاکستان ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قائد اور فرمان کے اصولوں پر چل کر قربانی، اتحاد اور جدوجہد کی بدولت ایک خواب کو حقیقت بنایا جا سکتا ہے اور پاکستان کو عظیم سی عظیم تر بنائیں گے 23 مارچ کا دن صرف ماضی کی یاد نہیں، بلکہ ہمیں روشن مستقبل کی راہ دکھانے والا چراغ بھی ہے۔ یوم پاکستان ان وعدوں کے تجدیدکا دن ہی جو اس قوم نے کیے اس سرزمین سے اوراس مٹی سے محبت ہمارے خون میں شامل ہے وطن عزیز سے محبت اور وفا ہماری جبلت اور سرشت بھی ہے اورروایت بھی ہمیں متحد ہو کر امن کی راہوں پہ چلنا ہے سبز ہلالی پرچم کو دنیا میں تاقیامت لہرانا ہے ان شاء اللہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے ھم متحد ہو کر دنیا کو بتا دیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔ اور پائندہ قوم ہے اور ہم سب کی پہچان پاکستان ہے