
ایک نئی امید…….ناصف اعوان
ایسی جماعت کی جیت عوام کی جیت اور اس کی شکست ان کی شکست ہو گی ۔یہ جماعت صرف پاکستان پیپلز پارٹی ہی ہو سکتی ہے
یکم مارچ انیس سو ستر کو گجرات میں جلسۂ عام سے ذوالفقار علی بھٹو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” آج ملک کے اندرونی و بیرونی حالات کیا ہیں یہاں کے عوام کی حالت زار پراوروں کو بھی رحم آتا ہے ۔ملک ہر طرح سے کمزور ہے ۔دراصل ہمارے ملک کو آمریت نے بہت نقصان پہنچایا اور عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح پابند سلاسل رکھنے کی کوشش کی گئی۔جس ملک کو عوام نے قربانیاں دے کر حاصل کیا اس ملک کی بہتری کے لئے توکیا’ کیا جاتا البتہ انہیں تختہ مشق بنایا گیا ان کے نام پر اور ان کے ملک کی تقدیر کا سودا کیا گیا آج پاکستان کے عوام اپنے ملک میں انگریزکے دور سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں ۔ملک کو اندرونی و بیرونی یلغاروں سے بچانے اور عوام کو خوشحالی کی راہ پر ڈال کر زندہ قوموں کی طرح پروان چڑھانے کے لئے از حد ضروری ہے کہ عوام کی حقیقی ترجمان ایک جماعت قائم کی جائے جو انہی کے نمائندوں پر مشتمل ہو ان ہی کے لئے کام کرے۔ ایسی جماعت کی جیت عوام کی جیت اور اس کی شکست ان کی شکست ہو گی ۔یہ جماعت صرف پاکستان پیپلز پارٹی ہی ہو سکتی ہے ۔اگر عوام کی جماعت کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو میں عوام کے ساتھ اسے برداشت کروں گا اور وہ جس راستہ پر چلیں گے میں بھی اسی راستے پر چلوں گا۔ ایک بات یاد رکھیں پچھلے تئیس برسوں سے کسی نے عوام کی بات نہیں کی“
افسوس آج وہی پیپلز پارٹی عوام کی نہیں خاص کی بات کر رہی ہے ان لوگوں نے اسے اپنے حصار میں لے رکھا ہے جس کے خلاف بھٹو مرحوم نے اس کی تشکیل کی تھی اگر بی بی شہید زندہ ہوتیں تو پی پی پی میں عوامی ”رنگ ضرور“ موجود ہو تا مگر اس کی قیادت اسے عوام سے بہت دور لے گئی ہے اگرچہ بلاول بھٹو زرداری نے بھٹوز کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ انہیں ان کے والد محترم کی حکمت و دانائی کے مطابق آگے بڑھنا پڑا ہے لہذا یہ جماعت عوامیت کے معیار پر پورا نہیں اتر سکی۔زیڈ اے بھٹو نے ضیا آمریت کا خوب مقابلہ کیا وہ جھکے نہ کسی ڈیل پر آمادہ ہوئے اور پھانسی کا پھندا چوم لیا یہی وجہ ہے کہ آج وہ تاریخ میں زندہ ہیں مگر ان کے اس مقام کی پی پی پی حفاظت نہیں کر سکی لہذا اسے محدود دائرے ہی میں دیکھا جا سکتا ہے ۔
بلاول بھٹو زرداری کی جب اٹھان ہو رہی تھی تو کچھ پرانے اور کچھ نئے کارکنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی کہ وہ ضرور ستر والی پی پی پی کے نعروں کو زندہ کرکے عوام کے مسائل کو کم کرنے کی راہ اختیار کریں گے۔ مزدوروں کسانوں طلبا اور دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو نئے سویرے کی نوید دیں گے مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کی امید دھندلانے لگی پھر چند برس کے بعد ان کو یقین ہو گیا کہ پی پی پی واقعتاً اب عوامی جماعت نہیں رہی اسے بھی اقتدار کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے لہذا اس نے اپنا ٹریک تبدیل کر لیا ہے وہ سمجھوتہ سیاست کی گود میں جا بیٹھی ہے۔ چلئیے اس نے مصلحتاً ایسا کیا بھی تھا تو اسے چاہیے تھاکہ وہ مزدوروں کسانوں اور پسے ہوئے طبقات کا بھی بھرم رکھتی انہیں ساتھ لے کر چلتی مگر نہیں وہ اپنی فکر سے آزاد ہو چکی تھی لہذا اب وہ اقتداری جماعت میں ڈھل چکی ہے جس کی وجہ سے پنجاب جو اس کا گڑھ تھا آج وہ اس میں نقطہء موہوم بن کر رہ گئی ہے لہذا وہ سکڑ سمٹ کر سندھ تک محدود ہو چکی ہے مگر حالات غریبوں کے وہاں بھی نہیں بدلے ابھی تک وہ بھی بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ انہیں تعلیم صحت اور انصاف کی سہولتیں اتنی ہی حاصل ہیں جتنی گونگلوؤں سے مٹی جھاڑی جاتی ہے لہذا وہاں کے لوگوں کی اکثریت مایوس ہے اور کسی تبدیلی کے خواہاں ہیں کیونکہ پی پی پی کے بیشتر رہنما ان کی حثیت کو تسلیم نہیں کرتے ۔ وڈیرہ شاہی انہیں اپنے قریب ہی نہیں آنے دیتی ۔وہ ریاستی وسائل سی مستفید ہونا اپنا حق سمجھتی ہے یوں وہ بھٹو صاحب کے نظریات سے بیگانہ ہو چکی ہے لہذا اب وہ بڑوں کوترجیح اور جیتنے والوں سے راہ ورسم کرنے لگی ہے مگر کہتے ہیں کہ وقت ایک سا نہیں رہتا تبدیل ہو جاتا ہے. جی ہاں ! اب حقیقی بھٹوز عوام کو گلے لگانے کے لئے میدان سیاست میں اتر رہے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے بد گماں ہیں۔ پی ٹی آئی بھی ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی کیونکہ زیادہ تر اس میں بھی ”سٹیٹس کو“ کے حامی در آئے ہیں اور اس کے سر براہ سیاست سے بہتر ضد کو خیال کرتے ہیں اسی لئے اب تک وہ پس زنداں ہیں وگرنہ سیاست و حکمت کا تقاضا تھا کہ وہ جمہوریت کی فاختہ کو توانائی بخشنے کے لئے تھوڑا پیچھے ہٹ جاتے کہ آگے بڑھنے کے لئے ایسا لازمی ہوتا ہے ایک جگہ پر جمے رہنا عقلمندی ہر گز نہیں ہوتی ۔
بہر کیف حقیقی بھٹوز ذوالفقار جونئیر اور محترمہ فاطمہ بھٹو نے عملی سیاست میں آنے کا عندیہ دے دیا ہے لہذا سیاست یقیناً ایک نیا رخ اختیار کرنے جارہی ہے اور یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ عوام روایتی سیاست سے تنگ آچکے ہیں وہی چہرے وہی طرز عمل ۔ ان کی آمد سے یہ بھی ہو گا کہ جو لوگ پی پی پی سے اپنا منہ موڑ گئے تھے وہ واپس آ جائیں گے کیونکہ ان کی پارٹی ریڈیکل بنیاد پر ہو گی اور عوام کا مزاج بھی ریڈیکل ہو چکا ہے ۔ ترقی پسند گروپس بھی ان کے گرد جمع ہو سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں نوجوان طبقہ اور ایلیٹ کلاس بھی متوجہ ہو سکتی ہے ۔موجودہ سیاسی جماعتوں کی اب عوام میں پزیرائی بہت کم رہ گئی ہے کیونکہ وہ ان سے مخلص نہیں ان میں وہ جزبہ نہیں جو عوام کی خدمت کےلئے کسی سیاسی جماعت میں موجود ہونا چاہیے یہ ان کی مجبوری ہے کہ وہ روایتی سیاسی جماعتوں کے ہی پیچھے بھاگتے ہیں کیونکہ انہیں ان کے سوا کوئی اور جماعت ہی نظر نہیں آرہی ہوتی لہذا بھٹوز کو اپنے بڑوں کا نام روشن کرنے کا موقع مل رہا ہے وہ با صلاحیت ہیں قابل ہیں اور اہل ہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھٹو صاحب کی فکر کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ ذوالفقار جونئیر اور محترمہ فاطمہ بھٹو کے دلوں میں بھی اپنے باپ اور دادا کی طر ح عوام بستے ہیں جو کبھی کسی کو مایوس نہیں کرتے ۔