
برطانیہ کا ‘قتل کی پیشین گوئی کا آلہ’ کیا ہے؟ یہ کیسے کام کرے گا، ماہرین پریشان کیوں؟
برطانیہ کا یہ آلہ کیا ہے، کیسے کام کرتا ہے اور اس کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟
لندن: برطانوی حکومت ایک ‘مرڈر پریڈِکشن ٹول’ یعنی قتل کی پیشین گوئی کے آلہ پر کام کر رہی ہے۔ امکان ہے کہ اس ٹول کی مدد سے لوگوں کے ذاتی ڈیٹا کو استعمال کر کے ایسے افراد کی شناخت کی جائے گی جوقاتل بننے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔ مجموعی طور پر اس ٹول کے ذریعے مستقبل کے قاتلوں کے بارے میں جانکاری اکٹھا کی جائے گی۔
برطانوی اخبار گارجین کے مطابق ٹیک ماہرین نے برطانیہ کے اس منصوبے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس موضوع پر کام کرنے والے محققین کا الزام ہے کہ وہ جرائم کے متاثرین سمیت ہزاروں لوگوں کی جانکاری کا تجزیہ کرنے کے لیے الگورتھم کا استعمال کر رہے ہیں۔ ایسا کر کے وہ سنگین پرتشدد جرم کرنے کے سب سے زیادہ خطرے والے لوگوں کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس پروجیکٹ کو ‘ہومیسائڈ پریڈکشن ٹول’ (homicide prediction project) کہا جاتا تھا، لیکن خبر ہے کہ اب اس کا نام تبدیل کر کے ‘شیئرنگ ڈیٹا ٹو امپروو رسک اسسمنٹ’ کر دیا گیا ہے۔ برطانیہ کی وزارت انصاف کو امید ہے کہ یہ منصوبے عوامی تحفظ کو فروغ دینے میں مدد کرے گا۔ تاہم اس پروجکٹ کی مخالفت کرنے والوں نے اسے ‘خوفناک اور مایوس کن’ قرار دیا ہے۔ اس منصوبے کے بارے میں پریشر گروپ اسٹیٹ واچ نے پتہ لگایا تھا، اور ‘حق معلومات’ کی درخواستوں سے حاصل کردہ دستاویزات کے ذریعے اس کے کچھ کاموں کا انکشاف ہوا۔
اسٹیٹ واچ کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو کسی جرم میں سزا نہیں ہوئی، ان کا ڈیٹا اس منصوبے کے حصے کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ جمع کیے جانے والے ڈیٹا میں خود کو نقصان پہنچانے کے بارے میں ذاتی جانکاری اور گھریلو زیادتی سے متعلق تفصیلات شامل بھی ہیں۔ تاہم، حکام نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس پروجکٹ میں ایسے افراد کا ڈیٹا ہی استعمال کیا گیا ہے جنہیں کم از کم ایک مجرمانہ سزا مل چکی ہے۔
دی گارجین کے مطابق حکومت کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ فی الحال صرف ریسرچ کے لیے ہے، لیکن اس کے خلاف مہم چلانے والوں کا دعویٰ ہے کہ استعمال کیے گئے ڈیٹا سے اقلیتی، نسلی اور غریب طبقات کے خلاف پیشین گوئیوں سے تعصب پیدا ہوگا۔ ایم او جے کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ "مجرم کی ان خصوصیات کا جائزہ لے گا جو قتل کے خطرے کو بڑھاتی ہیں اور خطرے کا تجزیہ کرنے کے لیے جدید ڈیٹا سائنس تکنیکوں کی مدد لی جائے گی”۔
ایک ترجمان نے کہا کہ یہ منصوبہ سنگین جرائم کے خطرے کی تشخیص کو بہتر بنانے کے لیے ثبوت فراہم کرے گا اور بالآخر بہتر تجزیہ کے ذریعے عوامی تحفظ میں معاون ثابت ہوگا۔ اس پروجیکٹ کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب رشی سنک اقتدار میں تھے۔ یہ ٹول 2015 سے پہلے پروبیشن سروس اور گریٹر مانچسٹر پولیس سمیت مختلف سرکاری ذرائع سے جرائم کے بارے میں ڈیٹا استعمال کر رہا ہے۔
پروسس کی جانے والی جانکاری کی اقسام میں نام، تاریخ پیدائش، جنس اور نسل، اور پولیس کے نیشنل کمپیوٹر پر لوگوں کی شناخت کرنے والے نمبر شامل ہیں۔ اسٹیٹ واچ کا دعویٰ ہے کہ معصوم لوگوں اور مدد کے لیے پولیس سے رابطہ کرنے والوں کا ڈیٹا استعمال کیا جائے گا، جو وزارت انصاف اور گریٹر مانچسٹر پولیس کے درمیان ڈیٹا شیئرنگ معاہدے پر منحصر ہے۔
پولیس کے ذریعہ حکومت کے ساتھ شیئر کیے جانے والے "ذاتی ڈیٹا کی اقسام” کے طور پر نشان زد سیکشن میں الگ الگ قسم کی مجرمانہ سزائیں شامل ہیں۔ تاہم، اس میں یہ بھی درج ہے کہ کوئی شخص پہلی بار متاثر/متاثرہ کے طور پر کب دکھائی دیا، جس میں گھریلو تشد بھی شامل ہے اور وہ عمر جب شخص پہلی بار پولیس کے رابطہ میں آیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بار بار تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جرم کی "پیشین گوئی” کے الگورتھمک نظام فطری طور پر ناقص ہیں۔ نیز اس ٹول کے استعمال سے لوگوں کی پرائیویسی خطرے میں پڑ جائے گی۔ دی گارجین کے مطابق وزارت انصاف کے ترجمان نے کہا کہ یہ منصوبہ صرف تحقیقی مقاصد کے لیے چلایا جا رہا ہے۔ اسے جیل، پروبیشن سروس اور پولیس فورسز کے زیر حراست سزا یافتہ مجرموں کے بارے میں موجودہ ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ پروبیشن پر لوگوں کے سنگین تشدد کے خطرے کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد مل سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے متعلق رپورٹ مناسب وقت پر شائع کی جائے گی۔ حکام کا کہنا ہے کہ جیل اور پروبیشن سروس پہلے ہی خطرے کی تشخیص کے آلات استعمال کر رہی ہے۔ یہ پروجیکٹ اس بات پر غور کرے گا کہ آیا پولیس اور حراستی ڈیٹا میں ڈیٹا کے نئے ذرائع شامل کرنے سے خطرے کی تشخیص میں بہتری آ سکتی ہے۔