کالمزحیدر جاوید سید

جہادی فتووں ملین مارچوں بائیکاٹ اور چندوں کا موسم………حیدر جاوید سید

اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ اور عالم اسلام کے لئے اسرائیل کے خلاف واجب جہاد کا تازہ فتویٰ انہوں (مفتی تقی عثمانی) نے ہی چند دن قبل دیا تھا

ان دنوں ملک عزیز اسلامی جمہوری ایٹمی پاکستان میں جہادی فتووں ملین مارچوں بائیکاٹ اور چندوں کا موسم اترا ہوا ہے۔ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کیلئے مسلمانوں کے پانچوں مکاتب فکر کے بڑے بڑے جید مولانا و مفتی صاحبان اسرائیل کے خلاف جہادِ واجب کے فتوئوں سے داد اور چندہ سمیٹ رہے ہیں اس بائیکاٹ موسم کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ حضرت مفتی محمد شفیع مرحوم کے قائم کردہ دارالعلوم کورنگی کراچی نے مظلومین غزہ کے لئے ایک ہزار روپے نقد سکہ رائج الوقت نصف جس کے مبلغ پانچ سو روپے ہوتے ہیں چندہ دیا ہے۔
مفتی صاحب مرحوم بٹوارے کے وقت متحدہ ہندوستان سے کراچی آئے اور اسلامی درسگاہ ( مدرسے ) کی بنیاد رکھی اس دارالعلوم کورنگی کراچی نے مفتی صاحب کے ورثا کو اسلامی بینکاری کا ’’ماہر‘‘ بنانے کے ساتھ ساتھ ارب پتی بنادیا ان (مفتی صاحبؒ) کے صاحبزادگان کروڑوں روپے کی ایسی گاڑیوں کے قافلے میں گھومتے ہیں جو خالصتاً یہودو نصاریٰ کی ایجاد ہیں فقط ایجاد ہی نہیں ان کے مالکان میں بھی یہودونصاریٰ شامل ہیں۔
دیوبندی مکتب فکر کے مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی قبلہ مفتی محمد شفیع مرحوم و مغفور کے ہی فرزند ارجمند ہیں۔ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ اور عالم اسلام کے لئے اسرائیل کے خلاف واجب جہاد کا تازہ فتویٰ انہوں (مفتی تقی عثمانی) نے ہی چند دن قبل دیا تھا اس فتوے کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ شامت فاسٹ فوڈ چینز کے ایف سی کی آئی دوسرے نمبر پر کوکا کولا پیپسی وغیرہ رہے۔
پنجاب کے شہر شیخوپورہ میں واقع کے ایف سی کے خلاف دو دن کے احتجاجی مظاہروں کے بعد تیسرے دن کی شب کے ایف سی پر کی گئی فائرنگ سے اس کا ایک ملازم جاں بحق ہوگیا عارف نامی اس ملازم کے قتل کا پرچہ کس کے خلاف درج ہونا چاہیے؟
زندہ معاشرے میں رسان سے جواب ملتا، بائیکاٹ کا فتویٰ دینے اور پرتشدد مظاہروں کا اہتمام کرنے والوں پر لیکن ہم زندہ معاشرے کا نہیں بلکہ قبرستان جیسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں کبھی کبھی مردے کفن پھاڑ کر شور مچاتے ہیں پھر خاموشی چھاجاتی ہے۔
یہ سطور لکھتے وقت اطلاع موصول ہوئی کہ پولیس نے راولپنڈی اور ملتان میں کے ایف سی کی فرنچائز پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ غزہ کی محبت اور اسرائیل کی نفرت میں راولپنڈی میں کے ایف سی کی ایک برانچ پر حملہ کر کے فرنچائز اور عملے سمیت گاہکوں کو (ان میں مردوخواتین شامل تھے) تشدد کا نشانہ بنانے والے مجاہدین کی گرفتاری کے بعد ان میں سے تین افراد کے عادی مجرم ہونے کا ریکارڈ سامنے آگیا یہ تین افراد مارپیٹ فائرنگ منشیات فروشی اور جنسی تشدد وغیرہ کے مقدمات کے نامزد مجرم ہیں۔
معاف کیجئے گا بات ذرا دور نکل گئی۔
غزہ کے مسلمانوں سے محبت ان سے ہمدردی ان کی بحالی کے لئے اگر خیر کے کام ہوں تو ان میں ضرور حصہ ڈالیں مگر یہ دیکھ لیں کہ آپ کا چندہ بائیکاٹ مہم کے لیڈروں کے گھروں کا کچن چلائے نہ ان کی گاڑیاں۔
میں ذاتی طور پر اس بائیکاٹ مہم کے شودے پروگرام کا ناقد ہوں کیونکہ پاکستانی مسلمانوں کا وہ طبقہ جو اسرائیل اور اسرائیل نواز مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے پر تلا ہوا ہے اگر تھوڑی سی ہمت کرے تو اپنے گھروں کے باہر سے بجلی کے میٹر اتاردے، موبائل توڑدے، ٹی وی و کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپ وغیرہ جلادے اس کے ساتھ ہر اس چیز کا بائیکاٹ ہونا چاہیے جو یہودونصاریٰ کی ایجاد ہے۔
یہ بسیں، کاریں، موٹرسائیکلیں، ہوائی جہاز،ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کر حلفاً کہیں ان کی ایجاد میں مسلمانوں کا کتنا حصہ ہے۔
ادویات بالخصوص جان بچانے والی ادویات کیجئے ان کا بائیکاٹ اور مولوی کے دم کے ساتھ ڈبہ پیر کے تعویز سے علاج کیجئے کرایئے۔
ہمزاد فقیر راحموں کہتے ہیں مولویوں مفتیوں کے فتوئوں پر بائیکاٹ کرنے والے مجاہد مسلمان اپنے اپنے فرقے کے مولوی و مفتی سے صرف یہ سوال پوچھ لیں کہ ” اگر اسرالیات نکال دی جائیں تو مسلمانوں کے تاریخی و مذہبی ورثے میں باقی کیا بچئے گا؟ ”
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے مجھے ایسا لگتا ہے کہ حالیہ اسرائیلی مصنوعات بائیکاٹ مہم بالکل ایسی ہے جیسے 1990ء کی دہائی میں مری و ایوبیہ وغیرہ کے چندہ باز کاروباری حضرات نے سوات میں صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدعی کو عطیات دے کر حالات خراب کرائے تھے کیونکہ اس وقت مری ایوبیہ وغیرہ میں در آئی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سیاحوں نے سوات و کالام وغیرہ کا جو رخ کیا تھا اس سے ان مری ایوبیہ وغیرہ والوں کے کاروبار متاثر ہوئے تھے
مجھ قلم مزدور نے الحمدللہ اسی عرصے میں مشرق پشاور میں اپنی متعدد تحریروں میں اس سازش کا پردہ چاک کیا تھا جو تحریک نفاذ شریعت محمدی کے پچیھے کارفرما تھی۔
اب بھی یہی لگتا ہے کہ کے ایف سی وغیرہ کوکا کولا، پیپسی وغیرہ کے بائیکاٹ کے پیچھے دیسی برانڈ کے کولا فروخت کرنے والے ہیں اور یہ ساری مہم ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ کے ایف سی ہو، کوکا کولا یا پیسی وغیرہ ان کے مقامی فرنچائزی کون ہیں؟ کیا پاکستان میں ان کے مالکان یہودی ہیں اور ان اداروں میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین اسرائیل سے منگوائے گئے ہیں؟
ان سوالوں کے جواب پر غور کرتے وقت ذہن میں رکھیں کہ کے ایف سی کی فرنچائز مکہ مکرمہ میں عین بیت اللہ کے سامنے قائم ہیں اسلام کا اعلان مکہ مکرمہ میں ہوا تھا یعنی اسلام کی جنم بھومی میں تو کے ایف سی حلال ہے لیکن یہاں دیسی مسلمانوں نے اَت اٹھارکھی ہے۔
ایک رائے اور بھی ہے میں یہ لکھے دیتا ہوں البتہ اس سے متفق نہیں وہ رائے یہ ہے کہ حالیہ جہادی فتوے ملین مارچی اور بائیکاٹ مہمیں اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ہیں وہ ابتر حالات کی پردہ پوشی کے لئے لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔
اس رائے سے میرے عدم اتفاق کی وجہ یہ ہے کہ قرارداد مقاصد سے آج تک ایک خاص مسلک کے ملائوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو ہنی مون جاری تھا اس کا موسم لَد رہا ہے۔ اور یہ بائیکاٹ ملین مارچ اور جہادی اعلانات دیرینہ ساجھے دار اسٹیبلشمنٹ کو دبائو میں لانے کے ساتھ یہ سمجھانے کے لئے ہیں کہ ’’ہم نہیں تو پھر تم بھی نہیں‘‘۔
آپ جہادی اعلانات، ملین مارچز اور بائیکاٹ کو غیرت ایمانی و اسلامی کا مظاہرہ قرار دینے والوں کے چہروں پر غور کیجئے کیا یہ وہی لوگ نہیں جن کے جہادی فتوئوں کی وجہ سے اس ملک کے ہزاروں افراد افغانستان اور کشمیر کے جہادوں کا رزق ہوگئے۔
ہر دو جہادوں کا رزق ہوئے افراد کے خاندانوں بارے معلومات حاصل کیجئے وہ کس حال میں ہیں جہاد سازی کرنے والے ارب پتی ملا و مفتی اب نئے جہادی میدان کے لئے ہمارے بچوں کے جذبات بھڑکارہے ہیں۔
ہوگا کیا بچے ہمارے آپ کے جان سے جائیں گے اور ملا و مفتی کی دولت اور طاقت میں اضافہ ہوگا۔
اچھا ایک اور سوال ہے اس پر غور کرلیجئے۔ اسرائیل حماس حالیہ تنازع یعنی اسرائیل اور غزہ ، اس تنازع کی ابتداء سے اب تک فلسطینی اتھارٹی جسے ایک آزاد ریاست کے طور پر دنیا کی اکثریت تسلیم کرتی ہے (یاد رہے کہ اسی فلسطینی اتھارٹی کا پاکستان میں سفارتی مشن موجود ہے) اب تک خاموش کیوں ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے حماس اسرائیل جنگ میں اپنے ہی لوگوں کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟
لمبی لمبی چھوڑنے اور فلسطینی اتھارٹی کو عالمی سامراج کا گماشتہ قرار دینے سے پہلے مشرق وسطیٰ کی سیاست اور اس میں اپنا وجو منوانے والے فریقوں بارے معلومات حاصل ضرور کیجئے تاکہ آپ جان سکیں کہ تقریباً ایک ہی وقت میں حماس، حزب اللہ لبنان اور بشارالاسد کا ’’بولورام‘‘ کیوں ہوا
اور یمنی حوثی ایسے ہی بولو رام کی طرف تیزی سے کیوں بڑھ رہے ہیں؟
تحریر نویس کی دست بدستہ درخواست ہے ان سوالوں پر غور ضرور کیجئے تاکہ آپ جان سکیں کہ اس ساری کھیچل کا انت کیا ہوگا؟

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button