پاکستاناہم خبریں

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی، دوسری طرف اس پر عائد لیوی میں بھی اضافہ کر دیا ہے

بلوچستان میں سڑک ضرور بننی چاہیے لیکن اس کے لیے کسی اور منصوبے سے پیسے لیے جانے چاہییں

ایک ایسے وقت میں جب عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گر رہی ہیں، پاکستان میں غربت اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے غریب عوام پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے محروم ہیں۔

احمد شاہ نامی ایک بوڑھے کسان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سڑک ضرور بننی چاہیے لیکن اس کے لیے کسی اور منصوبے سے پیسے لیے جانے چاہییں کیونکہ ان کے بقول سڑک کے منصوبے کے پیسے ٹھیکیداروں اور کمیشن والوں تک پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے لیکن تیل کی قیمت کم ہونے سے کسان سمیت سارے غریب لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے: ”ہم پیٹر چلاتے ہیں، ٹریکٹر کرائے پر لیتے ہیں، زرعی اجناس ٹرانسپورٹ کرتے ہیں۔ ہماری گندم خریدتے وقت حکومت کہتی ہے کہ مارکیٹ فورسز ہی قیمت کا فیصلہ کریں گی لیکن پٹرول کے معاملے میں حکومت مارکیٹ فورسز کو کیوں کنٹرول کر رہی ہے؟‘‘

‘پٹرولیم مصنوعات سے ملنے والی لیوی سے سستی بجلی اور بلوچستان ایکسپریس روڈ‘

پاکستانی حکومت کا موقف ہے کہ عوامی مفاد میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے میسر آنے والے وسائل عوام کو سستی بجلی دینے اور بلوچستان میں ایکسپریس روڈ بنانے میں خرچ کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان کے معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بتایا، ”پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عوام کو منتقل نہ کرنا اور اس پر لیوی کو بڑھانا بہت ہی نامناسب بات ہے۔‘‘ ان کے بقول حکومت ایسے فیصلے کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی فنانس کمیٹیوں اور پارلیمنٹ میں مشاورت کا قانونی و جمہوری طریقہ کار اختیار نہیں کر رہی۔

ایک رکشہ ڈرائیور پٹرول ڈلواتے ہوئے۔
کومتی مؤقف ہے کہ ”قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ مالی ضروریات اور ترقیاتی منصوبوں کی ترجیحات کے تحت کیا گیا ہے۔‘

تجزیہ کار حبیب اکرم نے  بتایا، ”پاکستان میں حکومت کے پاس اہم معاشی فیصلوں کا اختیار نہیں ہے، اس لیے ایسے فیصلے طاقتور حلقوں کی طرف سے آتے ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ”چونکہ یہ حکومت متنازعہ مینڈیٹ سے آئی ہے اور اسے ان فیصلوں کی سیاسی قیمت ادا کرنے کی بھی کوئی فکر نہیں ہے، اسی لیے وہ عوامی مفاد کو نظر انداز کر رہی ہے۔‘‘ حبیب اکرم سمجھتے ہیں کہ مائننگ، زراعت اور نہریں نکالنا تو اٹھارویں ترمیم کے مطابق صوبائی امور ہیں ان کو وفاقی حکومت کیوں دیکھ رہی ہے؟

گفتگو کرتے ہوئے حبیب اکرم کا مزید کہنا تھا، ”پٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں اضافہ کرنے کا مطلب ہے کہ حکومت ان لوگوں سے ٹیکس لینے میں ناکام ہو گئی ہے جن سے لیا جانا چاہیے تھا اب وہ اپنی غفلت کی سزا پہلے سے ٹیکس دینے والوں کو دے رہی ہے۔ اس عمل سے اس غریب کو بھی ٹیکس دینا پڑے گا جو قانون کے مطابق ٹیکس ادا کرنے کا اہل ہی نہیں ہے۔‘‘

حبیب اکرم کے مطابق ٹیکس میں اضافے کا فیصلہ بہت تکلیف دہ ہے کیونکہ اسے منی بل کی طرح پارلیمنٹ میں آنا چاہیے تھا۔

عوام کی مایوسی

پاکستان پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما جہانزیب ملک نے بتایا، ”ہم یہ توقع کر رہے تھے کہ پٹرول کی قیمت کم ہونے سے ہماری سیلز میں اضافہ ہوگا اور ہماری آمدنی میں بہتری آئے گی لیکن یہ نہ ہو سکا۔‘‘

لاہور کی سڑکوں پر چھابڑی والے نیامت کے مطابق، ”موٹر سائیکل پر چل پھر کر چیزیں بیچتا ہوں، مہنگا پٹرول زیادہ تر منافع لے جاتا ہے۔‘‘

پشاور میں ایک پٹرول پمپ پر پٹرول ڈلوانے کے منتظر لوگ
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ایک طرف تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی نہیں کی، دوسری طرف اس پر عائد لیوی میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔

یاد رہے نئے امریکی ٹیرف کے بعد عالمی کساد بازاری اور پٹرول کی طلب میں کمی کی وجہ سے عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔

یاد رہے عمران خان کے دور حکومت میں شہباز شریف نے چند سال پہلے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ”پٹرول کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافے سے ہر چیز کی قیمت کو آگ لگ چکی ہے، پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی میں چار روپے اضافہ عوام پر ایک اور ظلم ہے، حکومت آئی ایم ایف کے مفاد میں قانون سازی کر لیتی ہے اور عوام کے ریلیف کے لیے دو تہائی کا جھوٹ گھڑ لیتی ہے۔‘‘

حکومتی ذرائع کے مطابق، ابتدائی طور پر وزیر اعظم شہباز شریف نے پٹرول کی قیمت میں ممکنہ کمی کا اعلان کیا تھا، لیکن چند گھنٹوں بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ حکومتی مؤقف ہے کہ ”قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ مالی ضروریات اور ترقیاتی منصوبوں کی ترجیحات کے تحت کیا گیا ہے۔‘‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button