
ایران جوہری بم بنانے سے ’بہت دور‘ نہیں، رافائل گروسی
’’یہ ایک معمے کی طرح ہے۔ ان کے پاس مختلف اجزا ہیں اور ایک دن وہ بالآخر انہیں ایک ساتھ جمع کر سکتے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے کے سربراہ رافائل گروسی نے خبردار کیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے ’بہت دور نہیں‘ ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور سے قبل گروسی تہران کا دورہ کر رہے ہیں۔
جوہری توانائی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافائل گروسی بدھ کے روز تہران پہنچے اور انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کی تھی۔ آج جمعرات 17 اپریل کو ان کی ایران کی جوہری توانائی کی ایجنسی کے سربراہ محمد اسلامی سے بھی ملاقات ہو رہی ہے۔
تاہم ایران کے اپنے دورے پر روانہ ہونے سے قبل انہوں نے فرانسیسی اخبار ’لموند‘ سے بات چیت میں کہا کہ ایران جوہری بم بنانے کی صلاحیت سے اب ’’بہت دور نہیں‘‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’’یہ ایک معمے کی طرح ہے۔ ان کے پاس مختلف اجزا ہیں اور ایک دن وہ بالآخر انہیں ایک ساتھ جمع کر سکتے ہیں۔‘‘
تاہم جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ ایران کے ’’وہاں تک پہنچنے سے پہلے اب بھی ایک راستہ باقی ہے۔ مگر یہ بات تسلیم کرنا ہو گی کہ وہ (ایران) اب اس سے زیادہ دور نہیں۔‘‘
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ گروسی نے کہا، ’’بین الاقوامی برادری کو صرف یہی بتانا کافی نہیں ہے کہ ہمارے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں، تاکہ وہ ایران کی بات پر یقین کر لے۔ بلکہ ہمارا اس قابل ہونا بھی ضروری کہ ہم اس دعوے کی تصدیق بھی کر سکیں۔‘‘
واضح رہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک ایک طویل عرصے سے ایران پر شک کرتے رہے ہیں کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم تہران اس الزام کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔
گروسی کا ایران کا یہ دورہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان جوہری امور پر آئندہ ہفتے کے روز ہونے والے دوسرے دور کے مذاکرات سے پہلے ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کے روز دونوں ممالک کے درمیان پہلے دور کی بات چیت عمان میں ہوئی تھی اور فریقین نے اس ملاقات کو ’’تعمیری‘‘ قرار دیا تھا۔
اسی دوران ایران نے اب اس بات کی تصدیق بھی کر دی ہے کہ امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کا اگلا دور اب رواں ہفتے کے اواخر میں روم میں ہوگا۔
اطلاعات ہیں کہ دوسرے دور کی بات چیت میں تکنیکی تحفظات اور تصدیقی اقدامات پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ ایران کی جوہری پیش رفت ہتھیار سازی کی اہلیت تک نہ پہنچ سکے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ وہ ایک ممکنہ معاہدے کے فریم ورک پر بات چیت شروع کرنے کی امید رکھتے ہیں، لیکن اس کے لیے امریکہ کا ’’تعمیری مذاکراتی موقف‘‘ ضروری ہے۔
عمان میں پہلے دور کی اعلیٰ سطحی بات چیت کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ایران کو ’’جوہری ہتھیار کے تصور سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ یہ بنیاد پرست لوگ ہیں، اور ان کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہو سکتے۔‘‘
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے تو یہاں تک کہا تھا کہ مذاکرات ’’اچھی طرح چل رہے ہیں‘‘ اور تہران نے روس کے ساتھ مشاورت کے لیے ایک وفد ماسکو بھی بھیجا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے، ’’ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی حقیقی اور قابل تسلیم معاملہ ہے۔ البتہ ہم ممکنہ خدشات کے رد عمل میں اعتماد سازی کے اقدامات کے لیے تیار ہیں، تاہم مسئلہ افزودگی ناقابل گفت و شنید ہے۔‘‘
یاد رہے کہ مشرق وسطیٰ کے لیے امریکہ کے موجودہ ایلچی اسٹیو وٹکوف نے یورینیم کی افزودگی کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ایران کو کسی بھی جوہری معاہدے کے حصے کے طور پر یورینیم کی افزودگی کو ’’روکنا اور ختم کرنا‘‘ چاہیے۔ عراقچی نے اپنی بات اسی بیان کے جواب میں کہی۔
اس سال جنوری میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد ٹرمپ نے ’’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی اپنی پالیسی اختیار کرتے ہوئے ایران کے خلاف سخت پابندیاں دوبارہ لگا دی تھیں۔
مارچ میں صڈر ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں مذاکرات پر زور دیا گیا تھا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی کوئی معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ایران کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔