
نئے امریکی ایرانی مذاکرات سے قبل سعودی وزیر دفاع تہران میں
ایران کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل محمد باقری نے سعودی وزیر کو ان کی آمد پر خوش آمدید کہا اور انہیں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔
سعودی وزیر دفاع کا یہ دورہ خطے میں ممکنہ تنازعے کے بڑھتے ہوئے خدشات کے درمیان ہوا ہے، کیونکہ صدر ٹرمپ نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر سفارتی کوششیں امریکہ اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے جوہری تناؤ کو ختم کرنے میں ناکام رہیں، تو پھر ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کی جائے گی۔
ایران کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل محمد باقری نے سعودی وزیر کو ان کی آمد پر خوش آمدید کہا اور انہیں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔
سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد ایک تربیت یافتہ جنگی پائلٹ ہیں اور سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اب تک ایران کا دورہ کرنے والے پہلے سعودی وزیر دفاع ہیں۔
کئی دہائیوں بعد سعودی شاہی خاندان کے اعلیٰ ترین ارکان میں سے کسی فرد کا یہ ایران کا پہلا دورہ ہے۔ اس سے قبل شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے سن 1997 میں تہران میں منعقدہ اسلامی تعاون کی تنظیم کے اجلاس کے لیے سعودی ولی عہد کی حیثیت سے تہران کا دورہ کیا تھا۔
سعودی عرب نے کیا کہا؟
سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی نے وزیر دفاع کے تہران پہنچنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے اس دورے کے دوران ’’دونوں ممالک کے مابین دو طرفہ تعلقات اور مشترکہ دلچسپی کے امور پر بات چیت کے لیے متعدد اعلیٰ سطحی ملاقاتیں بھی شامل‘‘ تھیں۔

شہزادہ خالد نے جمعرات کے روز تہران میں ملاقات کے دوران سعودی عرب کے شاہ سلمان کا پیغام ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو پہنچایا۔
انہوں نے بعد ازاں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس کی اطلاع دیتے ہوئے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ’’ہم نے دو طرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔‘‘
ایران نے ملاقاتوں کے حوالے سے کیا کہا؟
ایران کے سرکاری میڈیا نے جمعرات 17 اپریل کو ہونے والی اس ملاقات میں خامنہ ای کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے کہا، ’’ہمیں یقین ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے مابین بہتر تعلقات دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہیں۔‘‘
ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان کئی عشروں تک جاری رہنے والے تناؤ کے تناظر میں بھی یہ دورہ بہت اہم کا حامل قرار دیا گیا۔
پرنس خالد نے اپنے اس دورے کے دوران ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے علاوہ ملکی صدر مسعود پزشکیان سے بھی ملاقات کی۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق علی خامنہ ای نے کہا، ’’خطے کے بھائیوں کے لیے ایک دوسرے کا تعاون اور حمایت کرنا بیرونی لوگوں پر بھروسہ کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔‘‘
سعودی وزیر دفاع نے ایران کی مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف محمد باقری سے بھی ملاقات کی، جس کے بعد ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق باقری نے کہا، ’’بیجنگ معاہدے کے بعد سے سعودی اور ایرانی مسلح افواج کے درمیان تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔‘‘

ایرانی امریکی جوہری مذاکرات
سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ ایران کے جوہری مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی تنازعات کے حل کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔
امریکہ اور ایران کے درمیان دوسرے مرحلے کی بات چیت اطالوی دارالحکومت روم میں ہفتہ 19 اپریل کو ہو گی، جس میں تکنیکی تحفظات اور تصدیقی اقدامات پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ ایرانی جوہری پروگرام میں پیش رفت ہتھیار سازی کی اہلیت تک نہ پہنچ سکے۔
گزشتہ ہفتے کے روز عمان میں اس نوعیت کی پہلی دوطرفہ لیکن بالواسطہ مکالمت کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ایران کو ’’جوہری ہتھیاروں کے تصور سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ یہ بنیاد پرست لوگ ہیں، اور ان کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہو سکتے۔‘‘
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ وہ ایک ممکنہ معاہدے کے فریم ورک پر بات چیت شروع کرنے کی امید رکھتے ہیں، لیکن اس کے لیے امریکہ کا ’’تعمیری مذاکراتی موقف‘‘ ضروری ہے۔