
ملتانی دوستوں سے ملاقاتیں…..حیدر جاوید سید
اس لئے آج کل وہ دوستوں کو پہلے کی نسبت پچاس فیصد کم دستیاب ہوتے ہیں البتہ جب دستیاب ہوتے ہیں تو پھ دوست نوازی میں کسر نہیں چھوڑتے۔
ملتانی منڈلی کی سنگت کواطلاع دی تھی کہ ہم ملتان میں قدم رنجہ فرمارہے ہیں۔ سوجھل دھرتی واس کی کانفرنس میں شرکت کے علاوہ امڑی جائیوں (بہنوں) کی قدم بوسی اور دوستوں کی زیارت کا پروگرام ہے البتہ ملتانی منڈلی کے لئے اذنِ عام ہے جس کا جی کرے "وہ نس بھج جائے” ۔
بھلا ہو ہمارے تاحیات قائد ملتانی منڈلی ملک خاور حسنین بھٹہ کا انہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود منڈلی کا ہنگامی ا جلاس بلانے کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ حسب سابق روایتی میزبانی کرتے ہوئے ظہرانے کااہتمام بھی کیا۔
ان کے کاروباری دفتر میں ان کی وسیع نشست گاہ میں وکیل بابو ساجد رضا تھہیم ایڈووکیٹ، حافظ صفوان،، مستقل عزیزی سئیں طارق شیراز کے علاوہ میزبان تو تھے ہی رواں صدی کا معجزہ یہ ہوا کہ برادر عزیز ملک محمود مہے بھی تشریف لے آئے اپنی تشریف آوری سے قبل انہوں نے نہ صرف رابطہ کرنے والے دوستوں کے فون اٹینڈ کئے بلکہ دوستوں کے درمیان پہنچ کر تاریخ رقم کردی۔
ہمارے مستقل عزیزی طارق شیراز کا بدقسمتی سے ملتان سے کراچی تبادلہ ہوگیاہے انہوں نے کمال شفقت سے رخصت لی اور شب بھر کا سفر کرکے نہ صرف ملتان پہنچے بلکہ اپنے جماندرو جوش و خروش کے ساتھ منڈلی کے اجلاس میں بھی رونق افروز ہوئے۔
دوستوں کی ذاتی و سماجی زندگی کے زندہ واقعات کے ساتھ سرائیکی وسیب اور ملک کی عمومی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا ۔ حافظ صفوان ان دنوں بہاولپور میں پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیتے ہیں انہوں نے بھی بہاولپور سے ملتان تک کا سفر کرنے کی زحمت کی ویسے وہ اگر گیارہ بجے کی بجائے دس بجے صبح فیصل موورز کے اڈے پر پہنچ جاتے تو کچھ مزید وقت مل جاتا ان سے ’’ملاکھڑے‘‘ کا۔
فقیر راحموں نے انہیں (حافظ صفوان) کو تفیسر سرسید احمد خان کا لقب عطا کیا۔ اب وہ جانے اور فقیر راحموں ہم تو صرف راوی ہیں منڈلی کے تاحیات قائد ملک خاور حسنین بھٹہ ملتانی وسوں کے روشن چراغ الحاج ملک شفقت بھٹہ مرحوم و مغفور کے فرزند ہیں فقط فرزند ہی نہیں بلکہ اپنے بابا کے سماجی اور قومی تعلقات کے وارث بھی
اس لئے آج کل وہ دوستوں کو پہلے کی نسبت پچاس فیصد کم دستیاب ہوتے ہیں البتہ جب دستیاب ہوتے ہیں تو پھ دوست نوازی میں کسر نہیں چھوڑتے۔
منڈلی کے ایک رکن عزیزم کاشف سندھو اپنی علالت کے باعث تشریف نہیں لاسکے ان کی صحت و سلامتی کے لئے دعائوں کے ساتھ ان کا تذکرہ ہوا ۔ مستقل عزیزی طارق شیراز نے کراچی سے ملتان کا سفر اور دفتری مصروفیات سے رخصت چونکہ ہماری خاطر لی تھی ان کا خصوصی شکریہ بنتا ہے۔
منڈلی کے ارکان مختلف الخیال ہیں لیکن ذاتی تعلق اور دوستوں پر اپنے سیاسی اور دیگر خیالات کو حاوی نہیں ہونے دیتے ورنہ منڈلی کا ہر اجلاس پانی پت کی ساتویں جنگ کا منظر پیش کرتا دیکھائی دے۔
ایک طویل عرصے بعد ملتانی منڈلی کے دوستوں کی زیارت ہوئی کئی گھنٹے جاری رہنے والی شاندار محفل میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کے ساتھ اور جملے اچھالنے کا موقع نصیب ہوا۔ اسی شام چونکہ سوجھل دھرتی واس کی پانچویں ادبی ثقاتی و قومی کانفرنس تھی اس لئے منڈلی کے ارکان بار دیگر ملک محمود مہے کے گھر پر اکٹھے ہوئے
ملتانی دوستوں کی ایک اور محفل ہمارے محترم دوست پرفیسر تنویر اختر خان نے منعقد کی اس محفل کیلئے متحرک دوستوں کی جوڑی مبشر علی فاروق ایڈووکیٹ اور ماہر تعلیم زبیر فاروق ہوتے ہیں مبشر علی فاروق اس بار غیر حاضر تھے کیونکہ وہ آجکل ملتان اور لاہور میں اپنی وکالت کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں ہفتہ میں دو دن پڑھاتے بھی ہیں۔
پروفیسر تنویر اختر خان، زبیر فاروق اور عزیزم سہیل بھٹی سے ہوئی نشست دو حصوں میں مکمل ہوئی پہلے ہماری قیام گاہ (ہوٹل) میں اور دوسرا حصہ ملتان مظفر گڑھ بائی پاس کے ایک ہوٹل میں جو حال ہی میں وزیرستان سے آئے ایک پشتون نے قائم کیا ہے
یہاں دوستوں کے درمیان اس سوال پر بھی کچھ دیر گفتگو ہوئی کہ کیا دوسرے علاقوں کے لوگوں کوبھی وزیرستان وغیرہ میں کسی طرح کا کاروبار کرنے کی سہولت اور ایسی آزادی حاصل ہے؟
ملتان میں پچھلے ڈیڑھ دو عشرے سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتونوں کے علاوہ بلوچ بھی کاروبار کررہے ہیں ہوٹلز، چائے خانوں اور کپڑے کے کاروبار کے علاوہ خیبر پختوخوا اور کوئٹہ میں تیار ہونے والی چپلوں کی درجنوں نہیں سینکڑوں دکانیں ہیں ان کے 95 فیصد خریدار اہل ملتان ہی ہیں کوئی تعصب ہے نہ حسد لیکن پتہ نہیں خود ان کاروباری لوگوں کے لہجوں میں مقامی لوگوں کے لئے ایک خاص قسم کی حقارت کیوں محسوس ہوتی ہے۔
نسلی شائونزم کے ساتھ یہ خود کو درجہ اول کا مسلمان بھی سمجھتے ہیں۔
خیر ان باتوں کو رہنے دیجئے۔ پروفیسر تنویر اختر خان مرنجا مرنج ، صاحب مطالعہ اور دوست نواز شخصیت ہیں پچھلے چند برسوں سے میں جب بھی اپنی امڑی حضور کے شہر آتا ہوں تو وہ دوستوں کے کٹھ کی میزبانی کرتے ہیں۔
سوال و جواب کی شاندار نشست کا اہتمام بھی۔ خود ان کی اپنی زنبیل میں ہر بار تازہ دم درجنوں سوالات ہوتے ہیں اور وہ کمال مہارت کے ساتھ ایک ایک کرکے سوال سامنے رکھتے رہتے ہیں۔ حالیہ دو حصوں پر مشتمل نشست میں بھی مسلم و سیاسی تاریخ، عصری سیاست کے ساتھ دیگر موضوعات پر ان کے سوالات کے ساتھ خود ان کی اپنی قیمتی آراء سے بھی مستفید ہونے کا موقع ملا۔
ان کے ہمراہ ہی پروفیسر نعیم اشرف کی اقامت گاہ پر مرحوم و مغفورپروفیسر اے بی اشرف صاحب کی ’’مکانڑ‘‘ تعزیت کے لئے حاضری دی۔ ملتانی وسوں کے روشن اوراجلے انسان پروفیسر اے بی اشرف، پروفیسر نعیم اشرف کے والد بزرگوار ہیں ایک ادیب نقاد شاعر معلم اور انسان دوست شخصیت کے طو پر ملتانی وسوں میں ہمیشہ یاد رکھے جانے والے جناب پروفیسر اے بی اشرف اپنی مثال آپ تھے۔
ان کے سانحہ ارتحال پر فاتحہ و تعزیت کرچکے تو لائق احترام دوست پروفیسر نعیم اشرف نے اپنے مرحوم والدین کی یادوں کے دفتر کھول دیئے یادوں کے اس دفتر میں سے انہوں نے جو بھی سنایا ہر ہر بات پر آنکھیں بھر آئیں اور درجات کی بلندی کے لئے دعا نکلی۔
ہم ملتانی وسوں کے لوگ رشتوں کے (وہ خونی ہوں یا سماجی) حوالے سے بڑے حساس ہوتے ہیں۔ نعیم اشرف جب اپنی مرحومہ والدہ محترمہ کا ذکر کرتے تو میری آنکھوں میں اپنی امڑی حضور کی تصویر اور دل میں ان کی یادیں اترنے لگتیں۔
کسی ایک لمحے میں میں نے ان سے عرض کیا
’’سئیں ہم تو ماں کو آٹھواں آسمان سمجھتے ہیں جوساتوں آسمانوں کو اپنی اولاد پر گرنے سے ا یک مضبوط ڈھال کا کردار تربت میں سوجانے کے بعد بھی ادا کرتی ہے۔‘‘
منگل اور بدھ (گزشتہ) کی درمیانی شب برادر عزیز سید سجاول نقوی اور ان کے کاروباری ساتھی مہر شاہد عزیز سے بھی نشست جمی اس نشست کے آخری حصے میں جو کینٹ میں بالی کے ہوٹل پر جاری تھی راجن پور سے آئے عزیزم سید ذیشان حیدر بخاری بھی تشریف لے آئے۔ سیدی سے فیس بک کے ذریعے شناسائی ہے۔ وہ بہت سارے عزیزوں اور دوستوں کے دوست ہیں اور ہمارے بھتیجے معظم علی جتوئی کے بھی گہرے دوست ان کا مطالعہ بہت اعلیٰ ہے ملاقات پہلی بار ہوئی اور خوب ہوئی۔
ملتانی دوستوں سے کچھ ملاقاتوں اور نشستوں کا احوال پچھلے کالموں میں بیان کرچکا کچھ دوستوں سے ملاقات نہیں ہوسکی وجہ ہماری نالائقی کہہ لیجئے
البتہ ملتان کچہری میں مہربان دوستوں یحییٰ ممتاز ملک ایڈووکیٹ، غلام عباس نیازی ایڈووکیٹ، بابر سوئیکارنو ایڈووکیٹ کے علاوہ محترمہ سیدہ بشریٰ نقوی ایڈووکیٹ سے بھی ملاقات ہوئی۔
یحییٰ ممتاز ملک ایڈووکیٹ کے چیمبرز میں ہی یہودی اشیاء کے بائیکاٹ کی پرجوش حامی جماعت اسلامی کی ہم خیال خاتون وکیل سے دلچسپ تبادلہ خیال ہوا۔