
(سید عاطف ندیم-پاکستان):وزیر مملکت برائے قانون و انصاف عقیل ملک نے منگل کو خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ پاکستان بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ معطل کیے جانے کے اقدام کیخلاف بین الاقوامی سطح پر کارروائی کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں پر حملے کے بعد دونوں روایتی حریف ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
وزیر مملکت نے کہا کہ اسلام آباد کم از کم تین الگ الگ قانونی آپشنز پر کام کر رہا ہے جس میں اس معاہدے کے ثالث عالمی بینک کے سامنے مسئلہ اجاگر کرنا بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان مستقل ثالثی عدالت یا ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں بھی کارروائی کرنے پر غور کر رہا ہے، جہاں پاکستان بھارت پر الزام عائد کر سکتا ہے کہ اس نے 1960 کے ویانا کنونشن برائے معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
عقیل ملک نے کہا کہ قانونی حکمت عملی پر مشاورت تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بات کا فیصلہ بہت جلد کیا جائے گا کہ کس کیس پر کارروائی کی جائے گی اور ممکنہ طور پر ایک سے زیادہ راستے اختیار کیے جائیں گے۔
بھارت میں آبی وسائل کے حکام نے معاملے پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
بھارت نے گزشتہ ہفتے مقبوضہ کشمیر میں حملے کے بعد 1960 میں عالمی بینک کے ثالثی میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاہدہ اس وقت روکا جائے گا جب تک پاکستان سرحد پار دہشت گردی کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتا۔
اسلام آباد نے اس حملے میں کسی بھی حوالے سے ملوث ہونے کی تردید کی ہے جس میں 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ تین حملہ آوروں میں سے دو پاکستان سے تھے جنہیں اس نے شناخت کیا ہے۔ اسلام آباد نے کہا ہے کہ پاکستان کے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش اعلان جنگ سمجھا جائے گا۔
پاکستان نے بھارت کے ساتھ تمام تجارتی تعلقات بھی معطل کر دیے ہیں اور بھارتی ایئرلائنز کے لیے اپنے فضائی حدود کو بند کر دیا ہے۔
یہ معاہدہ دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں کے پانی کی تقسیم اور استعمال کے لئے ایک معاہدہ ہے جو پاکستان کی آبی زراعت اور ہائیڈرو پاور کا 80 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔ یہ معاہدہ اب تک جنگوں اور دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کے ادوار کے باوجود فعال رہا ہے۔
عقیل ملک نے مزید کہا کہ چوتھا سفارتی آپشن جس پر اسلام آباد غور کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ تمام آپشنز میز پر ہیں اور ہم رابطہ کرنے کے لئے تمام مناسب اور قابل فورمز پر غور کر رہے ہیں۔
عقیل ملک نے کہا کہ معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کیا جا سکتا ہے اور اسے موخر نہیں کیا جا سکتا، معاہدے میں (ایسی) کوئی شق نہیں ہے۔
بھارت کی سینٹرل واٹر کمیشن کے حالیہ ریٹائرڈ سربراہ کشوندر وہرا نے کہا کہ پاکستان کے لیے بہت محدود آپشنز ہیں، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے (بھارت کے) اقدامات کا دفاع کرنے کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔
دونوں جانب کے حکومت عہدیداروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت فوری طور پر پانی کی فراہمی روک نہیں سکتا کیونکہ معاہدے نے بھارت کو صرف ہائیڈرو پاور پلانٹس بنانے کی اجازت دی ہے جن میں تین دریاوں پر کوئی قابل ذکر ذخیرہ یا ڈیم نہیں بنائے جا سکتے جو پاکستان کو مختص ہیں۔
لیکن چند ماہ میں حالات بدلنے شروع ہو سکتے ہیں اور کسانوں، جو پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کے باعث پانی کی کمی کا شکار ہیں، نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔