
جنگ بازوں اور رنگ بازوں سے بچ کر……..حیدر جاوید سید
ساعت بھر کے لئے رُک کر اس بات پر غور کیجئے کہ ہمارا یعنی ہم سب کا اس باولے پن کے بڑھاوے میں کتنا حصہ ہے؟
سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر تو جنگ کا ماحول نہیں بلکہ باقاعدہ جنگ جاری ہے۔ برصغیر کے طول و عرض میں بڑھک باز تھڑدلے وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ تاریخ و سیاسیات اور صحافت کے ایک طالب علم کے طور پر میں کبھی کبھی سوچتا ہوں ’’ایک ایسا خطہ جس کے باسی جارحیت پسندی کے مرض سے ہزاریوں تک محفوظ رہے جو اپنی امن پسندی اور انسان دوستی کے لئے مشہور ہوا اس خطے میں نفرتوں کے کاروبار جارحانہ مزاج، عدم برداشت اور جہالت نے کیونکر رواج پایا؟
جب بھی ایسی کوئی سوچ دستک دیتی ہے ایک ہی جواب ملتا ہے وہ یہ کہ حملہ آوروں کے مظالم، چاپلوسی اور ان سے ملتی جلتی بیماریوں نے اس خطے کے لوگوں کو اپنے اصل سے کاٹ دیا۔ اصل سے کٹے کم اصل یہی کچھ کرتے ہیں جو ہمارے آپ کے چار اور ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔
ساعت بھر کے لئے رُک کر اس بات پر غور کیجئے کہ ہمارا یعنی ہم سب کا اس باولے پن کے بڑھاوے میں کتنا حصہ ہے؟
بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں رونما ہوئے حالیہ واقعہ کے بعد بھارت کی نریندر مودی سرکار نے خطے میں جنگی ماحول بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پہلگام واقعہ کے صرف 10 منٹ بعد واقعہ کی ایف آئی آر کے اندراج پر پہلگام کے ہی ایک کشمیری باشندے نے بھارت کے یوٹیوبر نما صحافی کے بھاشن کو کاٹتے ہوئے اس سے سوال کیا ’’حملے کے صرف 10 منٹ بعد ایف آئی آر درج کرانے والے حملہ آوروں کو کیوں نہیں روک پائے؟ یوٹیوبر بولا اس طرح آپ بھارت کی ساکھ اور نظام پر انگلی اٹھارہے ہیں۔
کشمیری باشندے نے جواب دیا، "ساکھ اور نظام کے ڈرامے بہت ہوچکے یہ دیکھئے کہ پہگلام پاکستانی سرحد سے کتنے فاصلے پر ہے اور مسلح افراد سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے وقوعہ والی جگہ تک کیسے پہنچے؟”
جواب دینے کی بجائے بھارتی یوٹیوبر نما صحافی کی حالت کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی تھی۔
جنگی جنون کا زود ہضم چورن ہمارے یہاں بھی خوب فروخت ہورہا ہے۔مودی سرکار نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا تو نوجوان سیاستدان بلاول بھٹو زرداری بولے ’’مودی سن لے سندھ دریا کا پانی روکا گیا تو اس میں خون بہے گا‘‘۔ بلاول بھٹو کے مقابلے میں ا لیکشن لڑنے والے ایک نوجوان مولوی نے کہا ہم فوج کے ساتھ بھارتی سرحد پر پیش قدمی کریں گے اور صبح کا ناشتہ دارالعلوم دیوبند میں جاکر کریں گے۔
دو نوجوان سیاستدانوں میں ایک کی تربیت شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے کی تھی دوسرے کی مولویانہ ماحول میں ہوئی۔ مزید کچھ نہیں کہتا دونوں کے حامی تلواریں سونت لیں گے کیونکہ یہاں پسندیدہ لیڈر کا کہا بولا الٰہی حکم کی طرح مقدس ہوتا ہے۔
سچ پوچھیں تو میں ان دونوجوان سیاستدانوں کے زریں خیالات سے "منور” کائنات کا مشاہدہ کررہا تھا کہ میری سماعتوں پر آئی ایس آئی کے سابق چیف چوہدری ظہیر الاسلام کی سابق اہلیہ اور پیپلزپارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان کی بارڈر ’’توڑ‘‘ تقریر نے کان پھاڑ دستک دی۔ پلوشہ خان نے بابری مسجد کی تعمیر نو اور تعمیر نو کے بعد پہلی اذان کی سعادت حاصل کرنے والوں کے اسمائے گرامی اپنے خطاب میں ٹھاٹھ سے بیان کئے۔ میں پیکا آرڈیننس دائم برکاتہ کے احترام میں نہیں لکھ رہا آپ مجھے بزدل سمجھ لیجئے جو جی چاہے کہ ڈالئے۔
میرا تو حساس اداروں میں کوئی حوالدار میجر کیا لانس نائیک بھی واقف نہیں۔
دورپار کے چند رشتے دار سابق و حاضر ہیں لیکن دیہاتی رشتہ داروں کا شریکا رشتہ داری سے مضبوط ہوتا ہے۔
معاف کیجئے گا بات دوسری طرف نکل گئی، بلاول، راشد سومرو اور پلوشہ خان تینوں نوجوان سیاستدان ہیں ہم بڑے بوڑھے اصل میں ٹھوں ٹھاں سے ڈرتے ہیں آگ اور دھوئیں سے پیدا ہونے والے حبس کا تصور کرتے ہی ہمارا دم گھٹنے لگتا ہے۔
میں چھیاسٹھ برس کا ناتواں بوڑھا ہوں اپنے سفر حیات کے اب تک کے برسوں میں صرف پاک بھارت اعلانیہ و غیراعلانیہ جنگیں وغیرہ ہی نہیں دیکھیں افغان انقلاب ثور کے بعد ہوا امریکہ کی قیادت میں اہل کتاب کا لادین سوویت یونین کے خلاف مشترکہ جہاد دیکھا جنیوا معاہدے کی کوکھ سے پھوٹنے والی افغان خانہ جنگی دیکھی پھر طالبان کا ظہور اور اس ظہور کی کوکھ سے پھوٹا فرقہ وارانہ تشدد و قتل و غارت گری دیکھے۔
ایرانی انقلاب سے قبل ساواک اور شاہی دستوں نے تودہ پارٹی اور دوسرے شاہ مخالفوں پر جو مظالم توڑے ان کی روزانہ کی بنیاد پر تفصیل جانی پڑھی۔ اور تو اور خود اپنے ملک میں 1984ء میں پھوٹ پڑنے والی فرقہ وارانہ قتل و غارت گری اور آگے چل کر ہوئی طالبانائزیشن کے ستم دیکھئے بھگتے ان سب میں ہمہ قسم کے جہادی کاروباری حضرات کی موجیں لگ گئیں مرنے والوں کے ورثاء برباد ہوگئے۔
ایران میں انقلاب کے بعد مرنے وا لوں کے ورثاء کے لئے بحالی کا ملک گیر پروگرام بنا اور عمل ہوا ہمارے یہاں کیا ہوا اس پر اب کیا عرض کیا جائے۔ جانتے سب ہیں بس دوسرے کے بولنے کا انتظار کرتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت میں بنے جنگی مانحول میں ہمارے یہاں پی ٹی آئی اور اس کے ہم خیال للکارے ماررہے ہیں عمران خان کو جیل سے نکالو صرف وہی بھارت کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہے۔ باجوے کے ساتھ مل کر کشمیر فروخت کرنے والا جس نے پاکستانیوں کو روزانہ نصف گھنٹہ احتجاجاً کھڑے رہنے کی ترغیب دی تھی بھارت کو جواب دے گا؟ دے سکتا ہے، بالکل دے گا ” سات اپریل کے "وقوعے” کی طرح "۔
ان باتوں کو چھوڑیں ہم واہگہ کے دونوں اور بنے جنگی ماحول پر بات کرتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر جنگ کا مخالف ہوں صرف جنگ کا ہی نہیں ہر قسم کی عسکریت پسندی کو انسانیت اور امن کے لئے زہر قاتل سمجھتا ہوں
لیکن اگر جنگ کا ڈھول گلے پڑجائے گا تو پھر یہ ڈھول بجانا تو پڑے گا۔ اس سے قطع نظر درخواست یہی ہے کہ جنگی جنون کو ہوا دینے اور رنگ بازیوں سے پرہیز کیجئے۔
بھارت کی مودی سرکار کو درجن بھر سے زیادہ سنگین داخلی مسائل کا سامنا ہے اس پر بہار وغیرہ میں الیکشن بھی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں رشوت کے ذریعے حاصل کئے جانے والے ڈومیسائل کا سکینڈل ہے اربوں ڈالر کی مسلم وقف املاک کا رولا ہے مودی سرکار ان سارے رولوں سے لوگوں کی توجہ ہٹانے اور حالیہ مرکزی الیکشن میں اپنی عددی کمی کا بدلہ لینے کے لئے کسی حد تک بھی جاسکتی ہے۔
ہمارے اور اُدھر کے ذمہ دار ذرائع ہلکی پھلکی جھڑپوں اور مختصر جنگ بارے باتیں کررہے ہیں۔ فرزند لال حویلی شیخ رشید کی "کسر” آجکل جماعت اسلامی کے نئے پوسٹر بوائے امیر حافظ نعیم الرحمن پوری کررہے ہیں۔
ہمارے ہمزاد فقیر راحموں کہتے ہیں چھوٹی چھوٹی ایٹمی گولیوں سے بھرے تھیلے تھماکر سارے جنگ بازوں کو میزائلوں سے باندھ کر واہگہ کے دوسری طرف روانہ کردیا جائے۔ ہم نے پوچھا اس کا فائدہ؟ بولے جنگی جنون کم کرنے کا اس سے اچھا نسخہ ذہن میں نہیں آیا۔
لال ٹوپی والے سے جیدے کوچوان تک جنگی جنون کا چورن بیچنے والے دادیں سمیٹ رہے ہیں لیکن ہم یہ عرض کئے بنا نہیں رہ سکتے کہ مودی سرکار کا نشہ اتارنے کا موقع ملے تو نشہ ضرور اتارا جائے لیکن اگر ہوسکے تو جنگ بازی اور رنگ بازی سے دامن دونوں ملک بچاکر ہی رکھیں تو اچھا ہے۔
جنگی جنون اور جنگ پر اٹھنے والے وسائل امن، علم، انسانیت، انصاف، مساوات کے فروغ، غربت، جہالت اور عدم برداشت کے خاتمے پر صرف کئے جائیں۔