کالمزحیدر جاوید سید

’’کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں‘‘…..حیدر جاوید سید

علاقائی اخبارات میں تقریباً ایک ہی شخص اداریہ نویس کے طور پر سال کے 365 دن (چھٹیوں کے علاوہ) اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے۔

صبح سے یہی سوچ رہا تھا کہ آج صرف پڑھا جائے قلم مزدوری اور سوشل میڈیا گیری سے دور رہا جائے۔ اب یاد آیا کہ آج تو اتوار ہے کالم بہرصورت لکھ کر بھیجنا ہے اور اداریہ لکھنے کی قلم مزدوری میں رخصت اتفاقی و ہنگامی کا کوئی تصور نہیں ، دو تین بڑے اخبارات کے علاوہ ایڈیٹوریل بورڈ کا ’’روگ‘‘ کوئی نہیں پالتا۔
علاقائی اخبارات میں تقریباً ایک ہی شخص اداریہ نویس کے طور پر سال کے 365 دن (چھٹیوں کے علاوہ) اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ نیوز آف دی ڈے ہو، اچانک واقعہ ، المیہ ہو، جنگ ، بجٹ ہو مہنگائی یا دوسرے مسائل و معاملات اداریہ و شذرات اسے ہی لکھنا ہوتے ہیں۔
چار دہائیوں سے جاری اداریہ نویسی کے دوران اپنی ذات اورخاندان پر ٹوٹے غموں کے پہاڑ کے صدموں کا اثر بھی تھا لیکن کام کرنا مجبوری تھی والدہ محترمہ پھرحال ہی میں وفات پاجانے والے دو بھائیوں کے سانحہ ارتحال اور تدفین والے دن بھی پہلا کام اداریہ لکھ کر دفتر بھجوانا رہا۔ خاندان کی چند دیگر اموات پر بھی ایسا ہی کرنا پڑا۔
کچھ عزیزوں کا خیال ہے کہ میں کچھ بدتمیزی اور متکبر ہوں اس لئے غمی ہو یا خوشی تاخیر سے پہنچ کر اہمیت جتاتا ہوں۔
گو میرے ہی ایک دوسرے عزیز انہیں سمجھاتے ہیں کہ ’’اس کی ملازمت ہی ایسی ہے بدتمیز اور متکبر نہیں ہے‘‘۔ ایک رشتہ دار جو میری مجبوریاں اور ملازمت کی ضرورت کو سمجھتے ہیں اکثر شکوہ و طنز کرنے والے رشتہ داروں کے سامنے ڈھال بن جاتے ہیں انہوں نے ہی میری والدہ محترمہ کے جنازے والے دن کی صبح جب میں محلے کی ایک بیٹھک میں بیٹھا اداریہ لکھ رہا تھا تو چند رشتہ داروں کو ہمراہ لاکر انہیں دکھایا اور کہا خود آنکھوں سے دیکھ لو کتنا بدتمیز اور متکبر ہے۔
وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ وہ رشتہ دار شرمندہ نہیں ہوئے بلکہ ان میں سے ایک بولے ’’ہن اے سانوں دسدا پیا اے کہ اے بہوں پڑھیا لکھیا بندہ اے‘‘۔
معاف کیجئے گا میں بھی کیا باتیں لے بیٹھا گزشتہ دنوں (3مئی کو) جو عالمی یوم صحافت گزرا اس دن چند قلم مزدور دوستوں نے فون کرکے شکوہ کیا کہ اس بار آپ نے کالم نہیں لکھا ؟
عرض کیا لکھ دیتا تو شائع کون کرتا۔ کہنے لگے سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیتے اس نوٹ کے ساتھ کہ ’’اخبار نے یہ کالم شائع کرنے سے انکار کردیا ہے‘‘۔
عرض کیا کیا ہوتا چند لائیک بڑھتے کچھ داد ملتی اور بس۔ چولہا داد سے نہیں سوئی گیس سے چلتا ہے اور پیٹ اپنا ایندھن مانگتا ہے۔ کچھ باتیں اور بھی ہوئیں وہ یہاں تحریر نہیں کررہا کیونکہ میں ادارتی صفحات کے ذمہ داران کو کسی امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتا۔
ایک وقت تھا جب ہم جیسے قلم مزدور این پی ٹی کے تحت شائع ہونے والے اخبارات میں کنٹریکٹ پر کام کرتے تھے اور ہم عارضی ملازموں کی تنخواہ مستقل دفتری معاونین سے عموماً تین ساڑھے تین سو فیصد کم ہوتی تھی۔
ان دنوں جب کبھی دوسری بار چائے کے لئے دفتری معاون کو کہہ دیتے تو وہ گھور کر دیکھتا تھا۔ ہم لوگوں (عارضی ملازموں) کو ایسا لگتا کہ معاون آنکھوں کی آنکھوں میں کہہ رہا ہے کہ ’’تنخواہ 42 سو روپے اور نخرے گریڈ ون والے‘‘۔
بس نخرے ہی ہیں باقی نام ا للہ کا میں تو لگی لپیٹ کے بغیر ہمیشہ کہتا لکھتا ہوں کہ اگر میری اہلیہ پرنسپل نہ ہوتیں اور چند جان چھڑکنے والے دوست نہ ہوتے تو قلم مزدوری نے جو درگت بنانی بنوانی تھی چھٹی کا دودھ یاد آجاتا۔
آج بھی میری اہلیہ کی پنشن میری ماہانہ آمدنی سے دو سو فیصد زیادہ ہے دوست بھی سلامت و شاد ہیں اور ڈٹ کر ہمیشہ کی طرح ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ دونوں نہ ہوں تو لنگر کی کھاو لائن میں سوجائو والا نقشہ ہوتا۔
بار دیگر معذرت میں اداریہ لکھ چکا کالم لکھنے کو جی آمادہ نہیں تھا اب روزمرہ کی مزدوری کی مجبوری میں جو اور جیسا لکھا جارہا آپ اسے برداشت کرلیجئے کریم اور مہربان رب جانتا ہے کہ مقصد ہمدردریاں سمیٹنا نہیں ہمدردیاں سمیٹی بھی کیوں جائیں زندہ ہیں محنت کرتے ہیں یہی بہت ہے۔
اپنی ساری آزاد خیالی کے باوجود میں ہمیشہ یاد رکھتا ہوں کہ سید ابوالحسن امام علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا تھا ’’غریب وہ ہے جس کا کوئی درست نہ ہو‘‘۔ دوستوں کے معاملے میں میں اس ملک کا سب سے امیر آدمی ہوں کامل ایمان کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ اہلیہ، بیٹی، دوست اور کتابیں عطا شدہ نعمتیں ہیں باقی اونچ نیچ دکھ سُکھ مسائل اور بیماریاں تو ہر کس و ناکس کے ساتھ ہیں ۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2006ء میں جب مجھے دل کی بیماری نے آن دبوچا تو میرے یار طرح دار حسن رضا نے (وفات پاچکے اللہ درجات بلند کرے آمین) کہا ’’یار شاہ توں بندہ تاں سادہ تے دیہاتی ہیں پر بیماری امیراں آلی لبھ لئی آ‘‘
حسن نے اتنا کہہ کر ہسپتال میں بیڈ کے چار اور کھڑے دوستوں پر ایک نگاہ ڈالی اور پھر کہا ’’بابا جیندے انج دے یار ہوونڑ اس دا امیراں آلی بیماری پالنڑ دا شوق بنڑ دا وی اے‘‘
بات کہاں سے کہاں نکل گئی حالانکہ اردگرد خبروں، سنسنی خیز خبروں اور جنگ بازی و رنگ بازی کا شور ہے۔
امت مسلمہ کی آخری امید (اور بقول راجہ ناصر عباس جعفری پاکستانیوں کو الہٰی راستے پر چلانے اور لے جانے والے عظیم قائد عمران خان) نئی ریاست مدینہ کے معمار عمران خان کے حوالے سے بھارتی ذرائع ابلاغ جس طرح کی بیہودہ خبریں دے رہے ہیں اس پر بھی لکھا جاسکتا ہے۔ فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ مودی میڈیا نے یہ بیہودہ خبر اس لئے اڑائی ہے کہ وہ (مودی اور اس کا میڈیا) جانتے ہیں کہ میدان جنگ گرم کرنے کے فائدے کم اور نقصان زیادہ ہے اس لئے دشمن میں نفرت بھری پھوٹ ڈالو تاکہ اپنا کام آسان ہو۔ چلیں اس بیہودہ گوئی بھری خبروں کو دفع ماریں۔
آپ کے پاس وقت ہو تو کراچی یونیورسٹی کی طلباء یونین کے سابق صدراور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی کتاب ’’عالیشان واہمے‘‘ (پاکستان اور امریکہ کی غلط فہمیوں کی تاریخ) ضرور پڑھیں ویسے ان کی کتاب ’’پاکستان کیسا ہو؟‘‘ بھی پڑھنے والی ہے بس دونوں کتابیں پڑھتے وقت ایمان کا حقہ تازہ رکھنے کے لئے نظریہ پاکستان کے چولہے سے انگارے ضرور چلم میں بھرتے رہیں۔
میں نے آج صبح ڈاکٹر رضی احمد کی تصنیف ’’برصغیر کا المیہ‘‘ (ترجمہ ڈاکٹر محمد ذاکر حسین) پڑھنا شروع کیا ہے پڑھ لوں تو حاصل مطالعہ میں آپ کو شریک کروں گا
چند دن قبل میں نے اپنے لاڈلے دانشور بلال حسن بھٹی کی تعریف سے متاثر ہوکر ذکی نقوی کی کتاب ‘‘دیارو دشت‘‘ منگوائی تھی گو ابھی پوری نہیں پڑھ پایا لیکن ابتدائی ایک دو افسانوں نے پیسے پورے کردیئے۔
ذکی نقوی کی نثر شاندار ہے اور اسلوب بہت اعلیٰ۔ دانشور کی تعریف سو بلکہ دو سو فیصد بجا تھی۔
چند کتابیں اور بھی ہیں پڑھنے والی جیسے فرانسز فو کویاما کی "تاریخ کا خاتمہ” ، گریگ وائٹ لاک کی "افغان پیپرز” ذرا پڑھ لوں ان میں سے آپ کا حصہ نقد پیش کرنے کی سعادت سمیٹوں گا۔
اردو افسانہ پڑھنے والے طلبا سے یہی عرض کروں گا کہ ذکی نقوی کے افسانوں کی کتاب ’’دیارودشت‘‘ ضرور پڑھیں۔
کالم کے دامن میں گنجائش کم ہوتی جارہی ہے اب چلتے چلتے مختصر احوال دوستوں کے ایک گروپ ’’پنج تنی کٹھ‘‘ کے گزشتہ شب منعقد ہوئے بھرپور اجلاس کا جس میں عصری سیاست، دوطرفہ جنگی جنون اور چند دوسرے موضوعات پر کھلی ڈلی گفتگو ہوئی اور چند "بین آئٹم” پر بھی۔
باقی سب خیریت ہے اور آپ کی خیریت نیک مطلوب چاہتے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button