
(سید عاطف ندیم-پاکستان):بھارت نے 60 طیاروں سے پاکستان پر حملہ کیا تھا، جس پاکستان کے جانبازوں نے ناکام بنایا، وطن عزیز کی حفاظت کرنا ہماری اولین ترجیح ہے، آزادی کی ہر قیمت پر حفاظت کرے گے۔”
جمعے کو پاکستان کے جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایج کیو) میں پاکستان ایئرفورس کے ڈپٹی آپریشنز چیف ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد اور پاکستان نیوی کے کموڈور رب نواز کے ہمراہ انٹرنیشنل میڈیا سے بات کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ دونوں ممالک کے سکیورٹی ایڈوائزرز کے مابین براہ راست رابطہ نہیں ہوا، تاہم بلاواسطہ سفارتی رابطے ہوتے رہتے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کے ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے سکیورٹی ایڈوائزرز میں رابطہ ہوا ہے۔
جمعے کو راولپنڈی آئی ایس پی آر میں بریفنگ کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹینیٹ جنرل احمد شریف نے میڈیا نمائندگان کے سوالوں کے جواب بھی دیے۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ پاکستان فضائیہ اور بحریہ کے آپریشنل افسران بھی موجود تھے۔
پاکستان فضائیہ کے ڈپٹی چیف آف آپریشن ایئروائس مارشل اورنگزیب نے چھ اور سات مئی کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی ڈاگ فائٹ کی تفصیل بتائی۔ ڈاگ فائٹ کو فوجی اصطلاح میں جنگی طیاروں کی لڑائی کہا جاتا ہے۔
ایئروائس مارشل اورنگزیب نے بتایا کہ بی وی آر یعنی بصری حد سے باہر جسے عام زبان میں آنکھ سے اوجھل اور کئی کلومیٹر کے فاصلے پر موجود جہاز کو ٹیکنالوجی کی مدد سے دیکھنا اور اس کو لاک کر کے تباہ کرنا کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے جہاز کا آپ کے نزدیک ہونا بھی ضروری نہیں، بلکہ الیکٹرونک فٹ پرنٹ سے جہاز کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔
ڈپٹی چیف آف آپریشن نے بتایا کہ چھ اور سات مئی کی رات 12 بجکر 10 منٹ پر انڈیا کے جہاز سرحد کے پاس آئے، 12 بجکر 12 منٹ پر ہم فعال ہو چکے تھے اور ساڑھے 12 تک ہمیں اندازا ہو گیا تھا کہ آج کی رات فضائی جنگ ہونے والی ہے۔
انڈیا کے 60 جنگی طیارے تھے جن میں سے 14رفال طیارے تھے جبکہ پاکستان فضائیہ کے اس کے مقابلے میں 42 طیارے تھے۔ اس آپریشن میں جے ٹین سی، جے ایف 17 اور ایف 16 طیارے انڈیا کے ساتھ پوری سرحد پر پھیل چکے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’انڈیا کے طیاروں نے پہلے حملہ کیا تو ہم نے پہلے ان کے حملے کو ناکام بنایا اور اس کے بعد فضا میں ہی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے ان کے طیاروں کو ٹارگٹ کیا ہمارا فوکس رفال تھا، ہم چاہتے تو زیادہ رفال بھی گرا سکتے تھے لیکن ہم نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ تین رفال گرائے ہیں جن میں سے ایک بٹنڈا، ایک جموں اور ایک سری نگر میں گرا ہے، جبکہ مگ 29 اور ایس یو 30 بھی سری نگر میں گرے ہیں۔ یہ تمام طیارے پاکستانی سرحد سے 13 سے لے کر 23 ناٹیکل مائلز کے فاصلے پر تھے۔‘
ڈپٹی چیف آف آپریشن فضائیہ نے کہا کہ ’یہ ماڈرن وار فیئر ہے یہاں الیکٹرونک فٹ پرنٹ چھپ نہیں سکتا، ہمارے پاس پانچوں طیاروں کے ملبے کی لوکیشن موجود ہیں۔‘
اس دوران انہوں نے وہ تمام ثبوت بھی دکھائے کہ ملبے کہاں کہاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پائلٹس کی گفتگو کے ثبوت بھی سنوائے جس میں رفال گرنے کے بعد انڈین طیارے کے پائلٹ اپنے رف طیارے کی فارکیشن گوڈزیلا کو پکار رہے تھے کہ گوڈزیلا ون آپ موجود ہیں؟ لیکن آگے سے کوئی جواب نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ تو ایک آڈیو ہے ہمارے سسٹم میں ان کے تمام پائلٹس کی گفتگو کے ثبوت موجود ہیں اس لیے ہم یقین سے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ان کے پانچ کون کون سے طیارے گرائے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور انڈیا کے قومی سلامتی مشیروں کے درمیان براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اگر کسی تیسرے ملک کے ذریعے رابطہ ہوا ہے تو اس کو براہ راست رابطہ نہیں کہہ سکتے، سفارت کاری میں دوسرے تیسرے ملکوں کے ذریعے روابط ہوتے ہیں۔‘
احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ انڈین حملوں میں سات خواتین اور پانچ بچوں سمیت 33 پاکستانی جان سے گئے جبکہ 10 خواتین اور دو بچوں سمیت 62 لوگ زخمی ہوئے اور ان کے خون کے ایک ایک قطرے اور ان کی تصویروں سے پاکستانی قوم اور ریاست آگاہ ہے اور اس کا بدلہ چکایا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’آپ چاہتے ہیں کہ ایک نیا نارم ہو کہ جب انڈیا چاہے پاکستان آئے اور حملہ کرے، دہشت گردی کرے۔ آپ پاکستان کو سمجھتے کیا ہیں؟‘ ’ابھی تک تو ہم اپنا دفاع کر رہے ہیں اور شان سے کر رہے ہیں۔ جب ہم حملہ کریں گے، جواب دیں گے تو اس کی آواز ہر جگہ سنی جائے گی۔ ہم اپنے منتخب کردہ وقت، جگہ اور طریقے سے حملہ کریں گے جیسا ہم کرنا چاہتے ہیں۔‘
پاکستان کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جنگ میں کشیدگی میں اضافے کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ ’جب تک پاکستان کی خود مختاری اور وقار کی ضرورت ہے، (جنگ) جاری رہے گی۔ ہم ہر طرح کے انجام کے لیے تیار ہیں، جس چیز کا آغاز انہوں نے کیا ہے اس کا اختتام ہم کریں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستان اب تک انڈیا کے 77 اسرائیل ساختہ ڈرون گرا چکا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ ان کا کوئی ڈرون جو پاکستان کی طرف آئے گا وہ بچ کر نہیں جائے گا۔ بیشتر ڈرونز سافٹ پاور سے گرائے گئے ہیں جبکہ کچھ کو گرانے کے لیے ہارڈ پاور بھی استعمال ہوئی ہے۔ احمد شریف چوہدری نے کہا کہ وہ ان ڈرونز کا ملبہ ’وار ٹرافی‘ کے طور پر اکٹھا کر رہے ہیں اور انڈیا کو سروس دے رہے ہیں کہ ان کے بھیجے گئے ڈرونز کا ملبہ اکٹھا کر رہے ہیں۔
’پاکستان کے پاس شاندار دفاعی نظام ہے جو ممکمل طور پر نافذ اور موثر ہے اور انڈیا کو علاقے کی بالادست طاقت کا رویہ چھوڑ دینا چاہیئے کیوںکہ وہ علاقے میں بالادست نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ انڈیا نے سات اور آٹھ مئی کی رات کو چار لانگ رینج میزائل بھی فائر کیے تھے جن کو انہوں نے دفاعی نظام کے ذریعے ناکارہ بنایا۔
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’پہلگام واقعے کا پاکستان سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور نہ پاکستان ملوث ہے اور یہ بات اگر میں کہہ رہا ہوں تو اس کا مطلب ہے پاکستان کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں جو انڈپینڈنٹ کمیشن کے سامنے پاکستان پیش کر سکتا ہے اس لیے پاکستان نے مطالبہ کیا تھا کہ پہلگام واقعے کے الزامات کی تحقیقات کے لیے خودمختار کمیشن بنایا جائے۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سات اور آٹھ مئی کی درمیانی شب ہونے والی لڑائی میں نہ تو پاکستان کا کوئی عسکری اہلکار مارا گیا اور نہ ہی کسی جہاز کو نقصان پہنچا۔ تاہم انہوں نے گذشتہ چند روز میں انڈیا کی فوجی تنصیبات کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے پاس انڈین فوجیوں کی ہلاکتوں کے بارے میں کچھ معلومات ہیں لیکن یہ مصدقہ نہیں ہیں اور جب تک ان کے پاس مصدقہ حقائق نہیں ہوں گے وہ اس بارے میں بات نہیں کریں گے۔
احمد شریف چوہدری نے کہا کہ انڈیا کے پاکستان پر حملے کے وقت سعودی عرب، قطر، دوسرے خلیجی ممالک، چین اور کوریا سمیت 57 بین الااقوامی اور مقامی مسافر طیارے پاکستان کی فضاوں میں تھے جن میں سوار مسافروں کی جان انڈیا نے حملہ کرکے خطرے میں ڈالی۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’درحقیقت انڈیا میں دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپس ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کرواتے ہیں اور دنیا بھر میں قتل کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔‘
ان سے ایک سوال پوچھا گیا کہ کیا ’پاکستان نے پہلگام واقعے کی تحقیقات کی ہیں کیونکہ انڈیا نے جن شخصیات پر الزام لگائے ہیں وہ پاکستان میں ہیں۔‘
ماضی میں بھی پاکستان میں ہر دہشت گردی کے لیے بھارت سے احکامات دیے گئے، بھارت میں دہشت گردوں کے کیمپ موجود ہیں، بھارتی فوج دہشت گردوں سے رابطے کرکے ہمارے ملک میں دہشت گردی کرواتی رہی ہے۔
بھارت نے کھل کر اعتراف کیا ہےکہ بلوچستان میں دہشت گردوں سے ہر طرح کا تعاون کیا گیا ہے، پہلگام واقعے سے پہلے جہلم سے بھارتی جاسوس گرفتار کیا گیا، بھارت فتنہ الخوارج سمیت دیگر دہشت گردوں کو ہر طرح سے سپورٹ کرتا ہے، مقبوضہ کشمیر میں جعلی انکاؤنٹر بھارتی فوج کا معمول ہے۔