
پہلی بار ’الزائمر‘ کی تشخیص کے لیے بلڈ ٹیسٹ کی منظوری
اب امریکا بھر کے ہسپتال نئے بلڈ ٹیسٹ کو ’الزائمر‘ کی تشخیص کے لیے استعمال کر سکیں گے
(سید عاطف ندیم-پاکستان):امریکا کے صحت سے متعلق ادارے ’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘ (ایف ڈی اے) نے پہلی بار دماغی تنزلی کی بیماری ’الزائمر‘ کی تشخیص کے لیے پہلے بلڈ ٹیسٹ کی منظوری دے دی۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ایف ڈی اے نے بلڈ ٹیسٹ کٹ تیار کرنے والے ادارے ’فجیربیو ڈائگنوسٹکس‘ (Fujirebio Diagnostics) کی جانب سے تیار کردہ بلڈ ٹیسٹ کی منظوری دی۔
ایف ڈی اے کی جانب سے منطوری ملنے کے بعد اب امریکا بھر کے ہسپتال نئے بلڈ ٹیسٹ کو ’الزائمر‘ کی تشخیص کے لیے استعمال کر سکیں گے۔
نیا بلڈ ٹیسٹ خون کی دو پروٹینز کی سطح کو جانچ کر ’الزائمر‘ کی تشخیص میں مدد فراہم کرتا ہے۔
ٹیسٹ کے ذریعے خون کے دو مختلف پروٹینز کی سطح دیکھی اور جانچی جائے گی، جن کی شرح سے دماغ میں ’ایمیلوئیڈ بیٹا‘ نامی پروٹین کی شرح یا مقدار کا پتا لگایا جائے گا۔
ایف ڈی اے کی جانب سے مذکورہ ٹیسٹ کی منظوری پہلی سرکاری بلڈ ٹیسٹ کی منظوری ہے، اس سے قبل متعدد نجی بلڈ ٹیسٹ کٹس تیار کرنے والے اداروں نے خون کے ٹیسٹ کے طریقہ کار متعارف کرائے تھے لیکن انہیں استعمال کرنے کی منظوری نہیں ملی۔
’الزائمر‘ اور ’ڈیمینشیا‘ جیسی بیماریوں کی تشخیص ایک پیچیدہ اور مہنگا عمل ہے، ایسی بیماریوں کی تشخیص کے لیے سی ٹی اسکین، ایم آر آئی اور دیگر مہنگے اور قدرے مشکل ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، جس سے مریضوں کی مشکلات میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔
خون کے نئے ٹیسٹ سے ’الزائمر‘ کی تشخیص سے مریضوں کو مدد ملے گی اور کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کی جانب سے تیار کردہ طریقہ کار بہترین نتائج فراہم کرتا ہے۔
ماہرین پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ چوں کہ ’الزائمر‘ کی بیماری کا سبب بننے والا پروٹین ’ایمیلوئیڈ بیٹا‘ دماغ میں بنتا اور بڑھتا ہے، اس لیے دماغ میں ہونے والی پروٹین کی تبدیلیوں کو خون کے ٹیسٹ سے پکڑنا بعض اوقات مشکل بھی ہوتا ہے۔
الزائمر کی تشخیص کے لیے ماہرین سی ٹی اسکین، ایم آر آئی سمیت دیگر طرح کے متعدد ٹیسٹس کرتے ہیں اور بعض مرتبہ متاثرین کی بائیوپسی بھی کروائی جاتی ہے۔
یہ مرض دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے، اس سے یاداشت ختم ہوجاتی ہے اور ایک خاص قسم کا پروٹین اسے متحرک کرنے کا باعث بنتا ہے۔
اکثر یہ معمر افراد کو شکار بناتا ہے مگر کسی بھی عمر کے افراد کو یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے اور جیسا بتایا جاچکا ہے کہ یہ ناقابل علاج ہے تو اس کو ابتدائی مرحلے میں پکڑ لینا اس سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔
یہ بیماری بلڈ پلازما میں موجود پروٹین’ایمیلوئیڈ بیٹا’ کے بڑھنے سے ہوتا ہے اور یہ پروٹین بعض اوقات ایک دہائی قبل ہی بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔
اگرچہ اس بیماری کا کوئی مستند علاج نہیں، تاہم میڈیکل ماہرین مختلف ادویات اور ایکسرسائیز کے ذریعے اس کی شدت کو کم کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔