
سید عاطف ندیم-پاکستان، وائس آف جرمنی
حکومت پاکستان کی جانب سے یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کی مرحلہ وار بندش کا باضابطہ آغاز کر دیا گیا ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر یہ فیصلہ جہاں ایک جانب عوام کو سستی اشیائے خورونوش کی فراہمی کے حوالے سے خدشات کو جنم دے رہا ہے، وہیں ملازمین کی بے یقینی، بے روزگاری کے خطرات اور تنظیمی مزاحمت کی فضا بھی پیدا ہو چکی ہے۔
10 جولائی تک مکمل بندش کا فیصلہ
یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے مینجنگ ڈائریکٹر کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ 10 جولائی 2025 تک ملک بھر میں تمام یوٹیلٹی اسٹورز بند کر دیے جائیں گے۔ اس فیصلے کے تحت یکم جولائی سے اسٹورز کے آپریشنز کا مرحلہ وار اختتام شروع ہو چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق ملک بھر میں پہلے 3700 اسٹورز موجود تھے، جن میں سے 1700 فعال اسٹورز رہ گئے تھے، تاہم اب یہ تعداد 600 تا 700 تک محدود ہو چکی ہے۔ بند کیے گئے اسٹورز سے اشیاء کو مرکزی ویئر ہاؤسز میں منتقل کیا جا رہا ہے، جہاں سے یہ سامان حکام کی نگرانی میں دکان داروں کو واپس کیا جائے گا۔
اثاثوں کی نیلامی، آئی ٹی آلات کی واپسی کا فیصلہ
اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے مطابق:
اسٹورز اور دفاتر میں موجود آئی ٹی کا سامان واپس لیا جائے گا؛
اسٹورز کے ریکس، فرنیچر اور دیگر اثاثوں کی نیلامی ایک شفاف عمل کے تحت کی جائے گی؛
جنرل منیجر آئی ٹی کے ذریعے اثاثوں کی مالیت کا تخمینہ لگایا جائے گا؛
اسٹورز کی بندش کے بعد تمام ملازمین کو وی ایس ایس (رضاکارانہ علیحدگی اسکیم) فراہم کی جائے گی۔
ملازمین کی تعداد میں کمی اور بے یقینی
یوٹیلٹی اسٹورز سے وابستہ ملازمین کی تعداد بھی آدھی سے زیادہ کم ہو چکی ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق:
پہلے اسٹورز پر 12,000 ملازمین کام کرتے تھے؛
اس وقت صرف 6,000 کے قریب ملازمین فعال ہیں؛
کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز ملازمین کو پہلے ہی فارغ کر دیا گیا ہے؛
مستقل ملازمین کے حوالے سے تاحال کوئی حتمی حکومتی اعلان سامنے نہیں آیا۔
ملازمین کی نمائندہ تنظیم کا ردعمل: مزاحمت کا اعلان
یوٹیلٹی اسٹورز کی نمائندہ تنظیم کے سیکریٹری جنرل راجا مسکین نے حکومت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے:
"ہم حکومت کے اس فیصلے کو نہیں مانتے۔ ایم ڈی یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن اور دیگر حکام سے ہماری ملاقات ہوئی ہے، جہاں ہمیں اسٹورز کی بندش کا نوٹیفکیشن واپس لینے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔”
انہوں نے واضح کیا کہ:
ملازمین کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ جب تک ایسوسی ایشن اعلان نہ کرے، اسٹور بند نہ کریں؛
سٹورز کی سیل جاری رکھی جائے اور کسی عہدیدار کو سامان واپس نہ دیا جائے؛
کسی بھی قسم کی زور زبردستی کی صورت میں "بھرپور مزاحمت” کی جائے گی۔
راجا مسکین نے یہ بھی کہا کہ حکومت سے مکمل مذاکرات کے بغیر کوئی بندش قبول نہیں کی جائے گی۔ ان کے مطابق، تنظیم ایک جامع پیکج تیار کر کے حکومتی نمائندوں کے سامنے رکھے گی، جس میں ڈیلی ویجز، کنٹریکٹ اور مستقل ملازمین کے مستقبل کا لائحہ عمل شامل ہوگا۔
وزیراعظم کی ہدایت: رضاکارانہ علیحدگی اسکیم پر عملدرآمد
وزیراعظم شہباز شریف نے یوٹیلٹی اسٹورز کی بندش کے بعد ملازمین کو وی ایس ایس (Voluntary Separation Scheme) فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ انہیں کسی حد تک مالی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ تاہم اس پیکج کی تفصیلات، رقم، شرائط اور طریقہ کار تاحال واضح نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے ملازمین میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔
عوام کے لیے سستے راشن کی فراہمی متاثر
یوٹیلٹی اسٹورز کا بنیادی مقصد غریب اور متوسط طبقے کو سستے داموں آٹا، چینی، گھی، دالیں اور دیگر اشیائے ضروریہ فراہم کرنا تھا۔ اسٹورز کی بندش سے سب سے بڑا سوال عام آدمی کی ریلیف اسکیمز کے مستقبل پر کھڑا ہو گیا ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں یہ اسٹورز واحد سہارا تھے۔
خلاصہ: بندش کا فیصلہ زیرِ سوال، عوامی مفاد پر اثرات
یوٹیلٹی اسٹورز کی بندش کا عمل جہاں حکومتی کفایت شعاری پالیسی کا حصہ بتایا جا رہا ہے، وہیں یہ ہزاروں ملازمین کے روزگار اور لاکھوں شہریوں کے لیے ریلیف کے خاتمے کا اشارہ بھی ہے۔ حکومت اور ملازمین کے درمیان تناؤ بڑھ رہا ہے، اور اگر جلد اتفاق نہ ہوا تو یہ معاملہ احتجاج، قانونی کارروائی اور عوامی دباؤ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔