بین الاقوامی

اقوام متحدہ کی رپورٹ: 60 عالمی کمپنیاں اسرائیل کی نسل کشی میں مددگار، غزہ اور مغربی کنارے میں جنگی جرائم میں شراکت کا الزام

15 بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کو براہ راست اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی معاونت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ: اقوام متحدہ ہیومن رائٹس اسپیشل رائپوٹئر دفتر، نیویارک/جنیوا
تحریر: خصوصی نمائندہ، عالمی امور

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ماہر فرانسسکا البانیز نے ایک تہلکہ خیز رپورٹ میں دنیا کی 60 بڑی کاروباری کمپنیوں پر اسرائیل کو غزہ کی پٹی میں جاری جنگی کارروائیوں اور مقبوضہ مغربی کنارے میں غیرقانونی یہودی بستیوں کے قیام میں مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ کمپنیاں براہِ راست یا بالواسطہ طور پر نسل کشی کی مہم کا حصہ بن رہی ہیں۔

رپورٹ کی نوعیت اور دائرہ کار

فرانسسکا البانیز، جو ایک معروف بین الاقوامی انسانی حقوق کی وکیل اور اقوام متحدہ کے زیرِانتظام خصوصی رپورٹیئر کے طور پر کام کرتی ہیں، نے یہ رپورٹ انسانی حقوق کے محافظین، اساتذہ، اور سماجی کارکنوں کی شراکت سے مرتب کی۔ 200 نکات پر مشتمل یہ رپورٹ پیر کی رات منظر عام پر آئی، جس میں اسرائیل کے ساتھ کاروباری تعلقات رکھنے والی کمپنیوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فوراً اپنی سرگرمیاں معطل کریں، بصورت دیگر انہیں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے تحت احتساب کا سامنا ہو سکتا ہے۔

رپورٹ کے کلیدی نکات

  • رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث ہے، جس کے لیے ان کمپنیوں کی فراہم کردہ ٹیکنالوجی، اسلحہ، اور بھاری مشینری استعمال ہو رہی ہے۔

  • 15 بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کو براہ راست اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی معاونت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

  • رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں صورتحال مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہے جبکہ مغربی کنارے میں اسرائیلی حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

تعاون کرنے والی کمپنیوں کی فہرست

دفاعی و اسلحہ ساز کمپنیاں:

  • لاک ہیڈ مارٹن (Lockheed Martin) – اسرائیل کو جنگی طیارے اور بم فراہم کرنے کا الزام۔

  • لیونارڈو (Leonardo) – جدید جنگی ٹیکنالوجی کی منتقلی میں ملوث۔

بھاری مشینری فراہم کرنے والی کمپنیاں:

  • کیٹرپلر (Caterpillar) – بلڈوزر اور مشینری جو فلسطینی گھروں کو مسمار کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

  • ایچ ڈی ہنڈائے (HD Hyundai) – انہدامی کارروائیوں میں استعمال ہونے والے آلات کی فراہمی۔

ٹیکنالوجی و جاسوسی کی سہولیات دینے والی کمپنیاں:

  • الفیبیٹ (Alphabet/Google)، ایمازون (Amazon)، مائیکروسافٹ (Microsoft)، آئی بی ایم (IBM) – اسرائیل کو نگرانی، ڈیٹا اینالسز اور مصنوعی ذہانت سے متعلق ٹیکنالوجی کی فراہمی کا الزام۔

  • پالانٹیر (Palantir Technologies) – اسرائیل کو A.I. اور ڈیجیٹل جاسوسی کے اوزار فراہم کرنے میں ملوث۔

قانونی، اخلاقی اور سفارتی ردعمل

رپورٹ کے مطابق ان کمپنیوں کا اسرائیل سے تعاون انہیں بین الاقوامی فوجداری قوانین کی زد میں لا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے 47 رکن ممالک میں یہ رپورٹ تقسیم کی گئی ہے، تاہم یہ قانونی طور پر نافذ العمل نہیں ہے، بلکہ ایک اخلاقی اور سفارتی دباؤ کا ذریعہ ہے۔

 اسرائیل کا ردعمل:

جنیوا میں اسرائیلی مشن نے رپورٹ کو "غیر قانونی، جانب دار اور اقوام متحدہ کے دائرہ کار کا غلط استعمال” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور وزارتِ خارجہ نے تاحال اس پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا۔

غزہ میں تباہی کی صورت حال

رپورٹ کے مطابق غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 56,500 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہزاروں مکانات، اسپتال، اسکول اور دیگر بنیادی ڈھانچے تباہ ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اسے بدترین انسانی المیے میں سے ایک قرار دیا ہے۔

پرانے حوالہ جات اور اپڈیٹ شدہ فہرست

یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی سابقہ تحقیقاتی رپورٹس سے جڑی ہوئی ہے جن میں اسرائیل کی غیرقانونی بستیوں میں مددگار کمپنیوں کا ذکر موجود تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جون 2023 کے بعد اس فہرست کو اپڈیٹ کیا گیا، اور نئی کمپنیوں کو بھی اسرائیل سے تعلق کی بنیاد پر شامل کیا گیا۔


تجزیہ: ایک اخلاقی امتحان

یہ رپورٹ ایک بار پھر اس عالمی بحث کو زندہ کر رہی ہے کہ کارپوریٹ مفادات اور انسانی حقوق کے درمیان کس طرح توازن قائم کیا جائے۔ رپورٹ میں شامل کمپنیاں نہ صرف مالیاتی فوائد کی خاطر اسرائیل سے تعاون کر رہی ہیں بلکہ عالمی ضمیر پر ایک سنجیدہ سوال بھی چھوڑتی ہیں۔

کیا ان کمپنیوں کو فلسطینی عوام کے انسانی حقوق کو پامال کرنے والے اقدامات میں شامل سمجھا جائے گا؟
کیا بین الاقوامی برادری ان کمپنیوں کے خلاف عملی قدم اٹھائے گی یا صرف بیانات تک محدود رہے گی؟

ان سوالات کا جواب وقت کے ساتھ سامنے آئے گا، لیکن فی الحال یہ رپورٹ دنیا بھر میں ایک نئی بحث کو جنم دے چکی ہے — "سرمایہ اور ضمیر” کے درمیان جنگ کی۔


مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button