
ای سی او سربراہی اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف کا خطاب: ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے علاقائی کاربن مارکیٹ اور گرین کوریڈورز کے قیام پر زور
"یہ اقدامات صرف ماحولیاتی خطرات سے تحفظ فراہم نہیں کریں گے بلکہ معاشی ترقی، علاقائی انضمام اور انسانی بہبود کے لیے بھی سنگ میل ثابت ہوں گے۔"
خان کندی، آذربائیجان: وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) کے 17ویں سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی جیسے وجودی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے کم اخراج والے کوریڈورز، کاربن مارکیٹ پلیٹ فارم اور ریجنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ نظام کے قیام کو فوری عملی شکل دیں۔
یہ اجلاس آذربائیجان کے شہر خان کندی میں منعقد ہوا جس میں رکن ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ سطحی وفود نے شرکت کی۔ اجلاس کا مرکزی محور تجارت، پائیدار ترقی اور علاقائی رابطے کو فروغ دینا تھا۔
موسمیاتی تبدیلی: ایک مشترکہ خطرہ
اپنے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا:
"دنیا کے دیگر حصوں کی طرح ای سی او کے رکن ممالک بھی موسمیاتی تبدیلی کے شدید اور طویل المدتی اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پگھلتے ہوئے گلیشیئرز، صحرا زدگی، گرمی کی شدید لہریں، تباہ کن سیلاب اور زراعت میں کمی — یہ تمام عوامل خوراک کی سلامتی، روزگار اور پائیدار ترقی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔”
وزیراعظم نے یاد دلایا کہ پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے رکن ممالک کو متنبہ کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو خطے کی خوراک، پانی اور روزگار کی سلامتی مزید خطرے میں پڑ جائے گی۔
تجاویز: کم اخراج والے کوریڈورز، کاربن مارکیٹ، گرین جابز
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کئی قابلِ عمل تجاویز بھی پیش کیں:
ای سی او سطح پر کم کاربن اخراج والے ٹرانسپورٹ کوریڈورز کا قیام
کاربن مارکیٹ پلیٹ فارم کی تشکیل تاکہ ماحولیاتی مالیات کو متحرک کیا جا سکے
علاقائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ فریم ورک کا قیام
کلین انرجی منصوبے اور ایکو ٹورازم کی ترقی
نوجوانوں اور خواتین کے لیے گرین جابز کی تخلیق
وزیراعظم نے کہا کہ:
"یہ اقدامات صرف ماحولیاتی خطرات سے تحفظ فراہم نہیں کریں گے بلکہ معاشی ترقی، علاقائی انضمام اور انسانی بہبود کے لیے بھی سنگ میل ثابت ہوں گے۔”
پاکستان میں ماحولیاتی آفات: ایک وارننگ
وزیراعظم نے 2022 کے تباہ کن سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ماحولیاتی خطرات کی ایک واضح اور سنگین مثال ہے۔ اس سیلاب سے:
33 ملین سے زائد افراد متاثر ہوئے
بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا
زراعت، مواصلات اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا
انہوں نے مزید کہا کہ رواں سال مون سون کے دوران بھی اچانک آنے والے سیلابوں میں 60 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب ایک مستقبل کا خطرہ نہیں، بلکہ حال کا بحران بن چکی ہے۔
علاقائی تجارت اور رابطے کو فروغ دینے پر زور
شہباز شریف نے اپنے خطاب میں ای سی او ٹریڈ ایگریمنٹ (ECOTA) کو بھی جلد نافذ کرنے پر زور دیا۔ یہ معاہدہ 2017 میں اسلام آباد میں منعقدہ 13ویں ای سی او اجلاس میں طے پایا تھا، مگر تاحال قابلِ عمل نہیں ہو سکا۔
انہوں نے کہا:
"ای سی او ٹریڈ ایگریمنٹ ہمارے علاقائی انضمام کے وژن کی بنیاد ہے۔ جب تک ہم تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ نہیں دیتے، ہم علاقائی ترقی کے اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکتے۔”
وزیراعظم نے خاص طور پر درج ذیل شعبوں پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا:
ٹرانسپورٹ اور لاجسٹکس کوریڈورز کو فعال بنانا
توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانا
سیاحت، سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کے نئے مواقع پیدا کرنا
پاکستان کی علاقائی اقدامات میں پیش رفت
وزیراعظم نے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان نے حال ہی میں:
گوادر سے خلیجی ممالک کے لیے فیری سروس شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، جو علاقائی رابطے کا ایک نیا باب ثابت ہو گا۔
پاکستان کو عالمی سطح پر سیاحت کے نئے برانڈ کے طور پر متعارف کروانے کی حکمتِ عملی بھی تیار کی گئی ہے۔
چین نے حال ہی میں 3.4 ارب ڈالر کے کمرشل قرضے کو رول اوور کیا ہے، جو پاکستان کی معاشی استحکام کی جانب اہم قدم ہے۔
اختتامی کلمات: مشترکہ چیلنج، مشترکہ مستقبل
وزیراعظم نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا:
"ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں علاقائی تعاون صرف ایک آپشن نہیں بلکہ ضرورت بن چکا ہے۔ اگر ہم مل کر کام کریں تو ہم ماحولیاتی، اقتصادی اور سماجی چیلنجز پر قابو پا سکتے ہیں۔”
پس منظر: ای سی او کا وژن 2025
اقتصادی تعاون تنظیم کا وژن 2025 خطے میں:
علاقائی انضمام
پائیدار اقتصادی ترقی
ماحولیاتی تحفظ
انسانی وسائل کی ترقی
کو فروغ دینے پر مرکوز ہے۔ پاکستان، جو تنظیم کے بانی اراکین میں شامل ہے، خطے میں تجارت، توانائی اور پائیدار ترقی کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔