
ضلع اٹک میں خوف کی علامت افغان گینگ کا خاتمہ: سی سی ڈی کی کارروائی میں سرغنہ سید آغا ہلاک، متعدد وارداتوں کا سلسلہ تھم گیا
رنگو، فتح جنگ، حضرو اور حسن ابدال میں ڈکیتیوں سے پریشان عوام نے سکھ کا سانس لیا، ملزمان کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری
ناصر خان خٹک-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ:
پنجاب کے ضلع اٹک میں حالیہ برسوں کے دوران مسلسل ڈکیتیوں، چوریوں اور مسلح وارداتوں کی لہر نے شہریوں کو شدید خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا تھا، بالخصوص وہ گھرانے جو بیرونِ ملک سے واپس آتے یا جن کے اہل خانہ خلیجی ممالک میں مقیم تھے، مسلسل جرائم پیشہ گروہوں کا نشانہ بن رہے تھے۔
تاہم 15 ستمبر کو پنجاب سی سی ڈی (کاؤنٹر کرائم ڈیپارٹمنٹ) اور اٹک پولیس کی ایک مشترکہ کارروائی میں سید آغا نامی افغان گینگ کا سرغنہ مارا گیا، جس کے بعد علاقے میں نسبتاً امن کی فضا قائم ہوئی ہے اور شہریوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
رنگو کے رہائشی رضا اللہ کی کہانی: تارکینِ وطن کا اعتماد متزلزل
رنگو (تحصیل حضرو) کے رہائشی رضا اللہ، جو ایک خلیجی ملک میں کاروبار کرتے ہیں، رواں سال جون اور جولائی میں چھٹیوں پر اپنے آبائی گاؤں واپس آئے تھے۔ ان کی غیر موجودگی کے دوران ان کے گھر کو نشانہ بنایا گیا۔ واپسی پر وہ خود بھی ایک اندوہناک واقعے کا شکار بنے۔
ایک رات جب وہ گھر پر موجود تھے تو اچانک انہوں نے صحن میں آہٹ سنی۔ کھڑکی سے جھانکنے پر دیکھا کہ دو مسلح افراد صحن اور ڈرائنگ روم میں داخل ہو چکے تھے، جبکہ مزید افراد گھر کے باہر موجود تھے۔
یہ گروہ 14 لاکھ روپے سے زائد کی نقدی، قیمتی زیورات اور زمینوں کے کاغذات لے کر فرار ہو گیا۔
ضلع بھر میں مسلح وارداتوں کی لہر
رنگو کا واقعہ کوئی الگ تھلگ واردات نہیں۔ تحصیل فتح جنگ میں بھی زیورات کی ایک دکان پر ڈاکوؤں نے حملہ کیا، جہاں سے نو تولے سونا اور لاکھوں روپے نقدی لوٹی گئی۔
یہ سلسلہ حضرو، حسن ابدال، شین باغ، رنگو اور دیگر دیہی و نیم شہری علاقوں تک پھیل چکا تھا، جہاں شہری خوف و ہراس کے عالم میں راتیں جاگ کر گزارتے تھے۔ مقامی افراد بارہا پولیس کی ناقص کارکردگی اور غیر سنجیدگی پر احتجاج کر چکے تھے۔
افغانی گینگ اور سید آغا: پولیس کی فہرست میں ‘سب سے مطلوب’
پولیس ریکارڈ کے مطابق اٹک کے مختلف تھانوں میں درج درجنوں ایف آئی آرز میں ایک ہی گینگ کا ذکر بار بار سامنے آیا — افغانی گروہ جس کا سرغنہ سید آغا تھا۔
یہ گروہ نہ صرف گھروں اور دکانوں پر وارداتیں کرتا بلکہ بینکوں کی کیش وینز اور راستے میں چلنے والے مسافروں کو بھی لوٹتا۔
گینگ کے ارکان واردات کے بعد پشاور یا افغان سرحد کی جانب فرار ہو جاتے، جس سے ان کا پیچھا کرنا مشکل ہو جاتا۔ اطلاعات کے مطابق یہ گروہ انتہائی تربیت یافتہ اور مسلح تھا اور واردات کے دوران مزاحمت کرنے والوں پر تشدد یا گولیاں چلانے سے بھی دریغ نہیں کرتا تھا۔
سی سی ڈی کی کارروائی: خفیہ معلومات، ٹریپ اور فائرنگ کا تبادلہ
پنجاب میں سی سی ڈی کے قیام کے بعد جرائم پیشہ نیٹ ورکس کی نشان دہی کی گئی، جن میں سید آغا کا گینگ بھی شامل تھا۔ سی سی ڈی نے خفیہ انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنے کے بعد اٹک پولیس کے ساتھ مل کر 15 ستمبر کو ایک بڑا آپریشن لانچ کیا۔
مصدقہ ذرائع کے مطابق گینگ کو ٹریپ کیا گیا، جس کے بعد فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ اس کارروائی میں سید آغا اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک ہوا، جبکہ باقی ملزمان فرار ہو گئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ باقی ملزمان کی شناخت ہو چکی ہے، اور انہیں جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
جرائم پیشہ عناصر کی موت: عوامی اطمینان یا انصاف کا سوال؟
تحصیل حضرو کے ایک رہائشی محمد خیام (فرضی نام) نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا:
"یہ گروہ کئی سالوں سے لوگوں کو خوف میں مبتلا کر رہا تھا۔ خاص طور پر بیرونِ ملک سے آنے والوں کے گھر ان کا ہدف ہوتے۔ اب جب سی سی ڈی نے ان کے سرغنہ کو ہلاک کیا ہے تو ہم نے پہلی بار سکون محسوس کیا ہے۔”
تاہم کچھ ماہرین قانون اس پر تحفظات رکھتے ہیں۔ ریٹائرڈ کرنل انعام الرحیم (سینیئر وکیل) نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا:
"ایسے واقعات میں پولیس کی کارروائی قابلِ تحسین ضرور ہے، لیکن جب کوئی مشتبہ شخص پولیس مقابلے میں مارا جائے، تو جوڈیشل انکوائری لازمی ہونی چاہیے۔ شفافیت اور انصاف ایک مضبوط سوسائٹی کی بنیاد ہیں۔”
اٹک میں بیرونِ ملک مقیم شہریوں کا مسئلہ
تحصیل حضرو سمیت اٹک کے بیشتر علاقوں سے ہزاروں افراد بیرونِ ملک ملازمت کرتے ہیں، جو سال میں ایک یا دو بار اپنے گھروں کا رخ کرتے ہیں۔
انہی کی واپسی کو موقع سمجھتے ہوئے ایسے گینگ نقدی، زیورات اور زمینوں کے کاغذات لوٹتے۔ متعدد متاثرین کے مطابق، پولیس رپورٹ درج کرنے سے گریز کرتی ہے یا تعاون نہیں کرتی۔
سی سی ڈی کی کارروائیاں جاری
سی سی ڈی نے راولپنڈی اور اٹک سمیت پنجاب بھر میں ایسے خطرناک گروہوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ مزید دو بڑے گروہ نشان زد کیے جا چکے ہیں جن کے خلاف آئندہ ہفتوں میں کارروائیاں متوقع ہیں۔
نتیجہ: سی سی ڈی کی کارروائی پر عوامی ردعمل مثبت، مگر شفافیت برقرار رکھنا ضروری
سید آغا جیسے گروہوں کا خاتمہ علاقائی امن کی بحالی کے لیے اہم سنگ میل ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس کو عوام کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بحال کرنا ہوگا۔ ہر کارروائی کے بعد آزاد اور شفاف تحقیقات سے ہی اداروں کی ساکھ مضبوط ہو سکتی ہے۔
اہم نکات:
سید آغا نامی افغان گینگ سرغنہ سی سی ڈی کارروائی میں ہلاک
متعدد وارداتوں میں ملوث، اٹک میں دہشت کی علامت بن چکا تھا
خفیہ معلومات اور مشترکہ کارروائی کے بعد ٹریپ کر کے نشانہ بنایا گیا
ماہرین کی رائے: جوڈیشل انکوائری ضروری، شفافیت مقدم
سی سی ڈی کی دیگر کارروائیاں بھی جاری