بین الاقوامی

بیجنگ میں پیوٹن، کم اور ژی جن پنگ کی مشترکہ موجودگی: اتحاد کا مظاہرہ یا تضادات کی عکاسی؟

بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے اس منظر کو ایک مکمل اتحاد یا بلاک کی شکل دینے سے گریز کیا ہے

بیجنگ (بین الاقوامی ڈیسک) – چین کے دارالحکومت بیجنگ میں منعقدہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والی فوجی پریڈ میں ایک غیرمعمولی لمحہ اس وقت آیا جب چین کے صدر شی جن پنگ، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن ایک ساتھ سرخ قالین پر نمودار ہوئے۔ یہ منظر مغربی دنیا، بالخصوص امریکہ کے لیے ایک طاقتور پیغام تھا — مگر مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اتحاد ایک "بصری مظاہرہ” تو تھا، لیکن اس کے پیچھے موجود حقیقت میں کئی دراڑیں چھپی ہوئی ہیں۔

صرف فوٹو آپ یا نئی "محور طاقتیں”؟

تینوں ممالک نے اس تقریب میں اپنی مشترکہ موجودگی سے مغرب کو چیلنج کرنے کا واضح پیغام ضرور دیا، مگر بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے اس منظر کو ایک مکمل اتحاد یا بلاک کی شکل دینے سے گریز کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ تینوں ممالک اگرچہ امریکہ کی عالمی بالادستی کو چیلنج کر رہے ہیں، تاہم ان کے مفادات اور تعلقات میں بنیادی فرق اب بھی باقی ہے۔

"یہ تاحال ایک فوٹو آپ تھا، نہ کہ کسی گہرے سہ فریقی دفاعی اتحاد کی بنیاد،” سابق امریکی انٹیلیجنس افسر اور CNN کی تجزیہ کار بیتھ سینر نے کہا۔ "یہ مغرب، بالخصوص امریکہ اور اس کے ایشیائی اتحادیوں کے لیے ایک علامتی پیغام تھا، مگر اس نے چین اور شمالی کوریا کے درمیان عدم اعتماد اور پالیسی اختلافات کو چھپایا نہیں۔”

فوجی مظاہرہ: طاقت کا اظہار یا محض تاثر؟

بیجنگ کے تیانمن اسکوائر پر ہونے والی پریڈ میں چین نے جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی، بشمول بین البراعظمی بیلسٹک میزائلز (ICBMs)، ہائپرسونک کروز میزائلز اور جدید ڈرونز کی نمائش کی۔ تجزیہ کاروں نے اس فوجی مظاہرے کو چین کی "سخت طاقت” کا اظہار قرار دیا جو اس کے عالمی کردار کے ابھار کی غمازی کرتا ہے۔

سابق پینٹاگون اہلکار ایلی راٹنر کے مطابق، "یہ مظاہرہ واضح طور پر اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ چین کا ہدف امریکہ کی جگہ لینا ہے، نہ کہ محض علاقائی طاقت بننا۔” بیتھ سینر نے بھی کہا کہ یہ پریڈ "چین کی نرم اور سخت طاقت کے امتزاج کا مظاہرہ تھی، جس میں ایک متبادل عالمی نظام کا وژن چھپا تھا جس کی قیادت بیجنگ کرے گا۔”

دفاعی اتحاد میں دراڑیں؟

اگرچہ روس اور شمالی کوریا کے درمیان حالیہ مہینوں میں تعلقات میں واضح قربت دیکھی گئی ہے — خصوصاً جب کم جونگ اُن نے روس کو یوکرین جنگ میں ممکنہ طور پر افرادی قوت فراہم کرنے کی پیشکش کی — چین اس معاملے میں اب بھی محتاط نظر آتا ہے۔ ژی جن پنگ نے اب تک کم جونگ اُن کی بطور ایک عالمی رہنما مکمل حمایت نہیں کی۔

"شی اب تک شمالی کوریا کو کھلے دل سے گلے لگانے سے گریزاں رہے ہیں،” سابق انٹیلیجنس اہلکار سیڈ سیلر کا کہنا تھا۔ "وہ روس اور شمالی کوریا کے درمیان قربت کو تسلیم ضرور کر رہے ہیں، لیکن چین اس اتحاد کی قیادت کرنے یا اس میں گہری شمولیت اختیار کرنے سے ابھی دور ہے۔”

متضاد مفادات اور محدود ہم آہنگی

سیاسی مبصرین کے مطابق، چین، روس اور شمالی کوریا تینوں کے مفادات اگرچہ بظاہر مغرب مخالف نظر آتے ہیں، لیکن ان کی ترجیحات اور علاقائی مقاصد میں نمایاں فرق ہے۔ چین کا جھکاؤ معاشی و تزویراتی بالادستی کی طرف ہے، جبکہ روس یوکرین جنگ میں مغرب سے براہ راست تصادم میں ہے، اور شمالی کوریا بنیادی طور پر بقا اور عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کی جنگ لڑ رہا ہے۔

بیجنگ اجلاس کے سائے میں نئی گیس پائپ لائن

روس اور چین نے اس موقع پر ایک نئی قدرتی گیس پائپ لائن پر ابتدائی معاہدہ بھی کیا، جو ماسکو سے چین تک توانائی کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔ یہ معاہدہ مغرب کی جانب سے روس کو معاشی طور پر الگ تھلگ کرنے کی کوششوں کا جواب سمجھا جا رہا ہے۔

ٹرمپ کی تنقید

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تقریب پر ردعمل دیتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر تینوں رہنماؤں پر "امریکہ کے خلاف سازش” کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا:
"میں سمجھ گیا کہ وہ یہ سب کیوں کر رہے ہیں، اور وہ امید کر رہے تھے کہ میں دیکھ رہا ہوں — اور میں دیکھ رہا ہوں۔”


تجزیہ: ایک مشترکہ تصویر، مگر غیر مشترکہ مستقبل

اگرچہ بیجنگ میں تینوں رہنماؤں کی مشترکہ موجودگی ایک عالمی منظرنامے پر طاقتور علامتی پیغام تھا، لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ایک نیا سہ فریقی اتحاد قائم ہو چکا ہے، قبل از وقت ہوگا۔ زمینی حقائق، دفاعی پالیسیاں اور باہمی اعتماد کی کمی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ اتحاد تاحال کاغذی ہے، عملی نہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button