بین الاقوامیاہم خبریں

"آئی لو محمد” کا نعرہ، اظہار محبت یا نیا تنازع؟ بھارت میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں شدت

"کیا اپنے نبی سے محبت کا اظہار بھی جرم بن چکا ہے؟"

خصوصی نمائندہ – نئی دہلی/کانپور

بھارت میں حالیہ دنوں ایک سادہ مگر پُراثر نعرہ "آئی لو محمد” (I Love Muhammad) نہ صرف مذہبی اظہار کا ذریعہ بن گیا ہے بلکہ اس نے ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو جنم دے دیا ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے اپنے پیغمبر سے عقیدت کے اظہار کے لیے استعمال کیے جانے والے اس نعرے نے اب ایک بڑے سیاسی، سماجی اور قانونی مباحثے کی شکل اختیار کر لی ہے، جہاں گرفتاریوں، احتجاج، اور سیاسی الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔


تنازع کا آغاز: کانپور کا جلوس اور پہلا بینر

اس تنازع کی شروعات رواں ماہ کے آغاز میں اتر پردیش کے صنعتی شہر کانپور سے ہوئی، جب 12 ربیع الاول کے موقع پر نکالے گئے میلاد النبی ﷺ کے جلوس میں پہلی بار ایک نیا بینر نظر آیا جس پر لکھا تھا:

"I ❤️ Muhammad"
یعنی "میں محمد سے محبت کرتا ہوں”

یہ بینر جلوس کے راستے میں لگایا گیا تھا، جس پر مقامی ہندو تنظیموں اور شدت پسند گروپوں نے اعتراض کرتے ہوئے شکایت درج کروائی کہ یہ ایک نئی اصطلاح ہے، جو روایتی مذہبی مظاہروں میں پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئی۔


پولیس کی مداخلت، ایف آئی آر اور نئی کشیدگی

شکایات کے بعد پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے بینر لگانے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ معاملہ مذہبی نعرے کے خلاف نہیں، بلکہ "نئی رسم یا روایت متعارف کروانے” اور دو فرقوں کے درمیان کشیدگی بڑھانے کی کوشش پر کارروائی کی گئی۔

مگر مسلمانوں نے اسے سراسر جانبدارانہ کارروائی قرار دیا اور مؤقف اپنایا کہ

"کیا اپنے نبی سے محبت کا اظہار بھی جرم بن چکا ہے؟”

اس کے بعد پولیس اور مظاہرین کے درمیان مختلف علاقوں میں جھڑپیں ہوئیں، پوسٹرز پھاڑنے کے الزامات لگے، اور معاملات شدت اختیار کر گئے۔


24 افراد کے خلاف مقدمہ، گرفتاریوں کا سلسلہ

کانپور پولیس نے ایک ہفتے بعد 24 افراد کے خلاف باقاعدہ مقدمات درج کیے جن پر "فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے” اور "نیا مذہبی رواج متعارف کروانے” کا الزام لگایا گیا۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے شہر میں احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔ نوجوان سڑکوں پر نکل آئے، ہاتھوں میں "I Love Muhammad” کے پوسٹرز اور بینرز، زبان پر نعرے۔

پولیس نے ان مظاہروں کو غیرقانونی قرار دے کر کریک ڈاؤن شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں درجنوں مزید افراد گرفتار کر لیے گئے۔


سیاسی ردعمل: اویسی اور سماج وادی پارٹی میدان میں

معاملہ جب میڈیا کی شہ سرخیوں میں آیا تو سیاست دانوں کا ردعمل بھی سامنے آنے لگا۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا:

"میں محمد سے محبت کرتا ہوں کہنا جرم نہیں، یہ میرا آئینی حق ہے۔”

اویسی نے پولیس اور حکومت پر مذہبی آزادی سلب کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ یہ کاروائیاں بھارتی آئین کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔

دوسری جانب، سماج وادی پارٹی کے ترجمان ابھیشیک باجپئی نے کہا:

"جب ‘میں رام سے محبت کرتا ہوں’ کہنا جرم نہیں، تو ‘میں محمد سے محبت کرتا ہوں’ کہنے پر پابندی کیوں؟ پولیس کی ناکامی نے اس احتجاج کو جنم دیا ہے۔”


بی جے پی کا دفاع، عوام میں تقسیم

بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے ترجمانوں نے پولیس کی کارروائی کا بھرپور دفاع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے:

"قانون کی خلاف ورزی، چاہے کسی مذہب کے نام پر ہو، برداشت نہیں کی جائے گی۔ مذہبی ہم آہنگی کو خراب کرنے والے عناصر کو ہر صورت کچلا جائے گا۔”

یہ موقف مسلمانوں میں غم و غصے کا باعث بن رہا ہے، جو اس کارروائی کو "سیاسی مفادات کے تحت مذہبی نشانہ بنانا” قرار دے رہے ہیں۔


احتجاج کی وسعت: یو پی سے مہاراشٹر، گجرات، اتراکھنڈ تک

کانپور کے واقعے کے بعد احتجاجی مظاہرے اتر پردیش کے دیگر اضلاع تک پھیل گئے، جن میں بجنور، مرادآباد، بریلی، غازی آباد اور لکھنؤ شامل ہیں۔ اب یہ سلسلہ مہاراشٹر، اتراکھنڈ اور گجرات تک پہنچ چکا ہے۔

مساجد سے اعلانات، سماجی کارکنوں کی گرفتاریاں، اور بینرز پھاڑنے کے واقعات عام ہو گئے ہیں، جب کہ پولیس مسلسل کارروائیاں کر رہی ہے۔


علما و مذہبی رہنماؤں کی اپیل: صبر، امن اور آئینی جدوجہد

ملک کی مختلف مسلم مذہبی تنظیموں، بشمول جمعیت علماء ہند، دارالعلوم دیوبند اور دیگر معروف اداروں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ:

  • پرامن رہیں

  • جلوسوں میں قانونی دائرے میں رہ کر شرکت کریں

  • اشتعال انگیزی سے گریز کریں

  • آئینی و عدالتی راستہ اختیار کریں


اظہار محبت یا جرم؟ آئینی سوالات ابھرنے لگے

اس تنازع نے کئی بنیادی سوالات کو جنم دیا ہے:

  • کیا اپنے عقیدے کے اظہار کا حق صرف مخصوص نعروں تک محدود ہے؟

  • کیا ایک نیا نعرہ متعارف کرانا واقعی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہے؟

  • کیا ریاستی ادارے تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کر رہے ہیں؟

  • کیا اب مذہب سے محبت کا اظہار بھی سیاسی یا مجرمانہ معاملہ بن چکا ہے؟


نتیجہ: "آئی لو محمد” ایک نعرہ، کئی پہلو

"I Love Muhammad” بظاہر ایک سادہ جملہ ہے، جو عقیدت اور احترام کا اظہار کرتا ہے، مگر موجودہ ہندوستانی سیاسی و سماجی ماحول میں یہ جملہ ایک تحریک، احتجاج، گرفتاری اور بیانیے کی جنگ بن چکا ہے۔

یہ واقعہ اس بات کا آئینہ ہے کہ مذہب اور اظہار رائے کے درمیان موجود باریک مگر خطرناک لکیر اب دھندلی ہوتی جا رہی ہے۔ جسے جتنا جلد واضح نہ کیا گیا، اتنا ہی ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور جمہوری اصولوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button