گزشتہ ماہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کے اس حکم نامے کو ختم کر دیا تھا جس میں فوج کو زرعی مقاصد کے لاکھوں ایکڑ اراضی دی گئی تھی۔
پنجاب کی نگران حکومت نے اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی تھی۔
بدھ کو لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے حکومت کی اپیل پر ابتدائی سماعت کی اور سنگل بینچ کا فیصلہ فوری معطل کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔ فریقین کو 17 جولائی تک کے لیے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پنجاب حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی تو چیف سیکرٹری پنجاب کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے عدالت میں دلائل کا آغاز کیا۔
انہوں نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ’آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت عدالت کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ پالیسی معاملات میں دخل اندازی کرے۔ عدالتی فیصلے میں تضاد ہے۔ جبکہ درخواست گزار متاثرہ فریق بھی نہیں ہے۔‘
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ سنگل بنچ نے فوج سے زمین کی واپسی کا فیصلہ قانون کے برعکس کیا لہٰذا عدالت سنگل بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئےحکم امتناعی جاری کرے۔
انہوں نے بتایا کہ ’منتخب پنجاب کابینہ نے لیز میں توسیع کی منظوری دی جبکہ موجودہ نگران کابینہ نے پہلی کابینہ کے فیصلے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔‘
عدالت میں دائر کی گئی انٹراکورٹ اپیل میں یہ موقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ ’زمین کےحصول کا مقصد صرف کارپوریٹ زرعی فارمنگ ہے اور یہ ملکی مفاد کے مطابق ہے۔ عدالت کی جانب سے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار پر سوال اٹھانا خلاف آئین ہے۔‘
یہ عوامی مفاد کا انتہائی اہم منصوبہ ہے: پنجاب حکومت
حکومت کی اپیل کے مندرجات کے مطابق ’عدالتی فیصلے میں اٹھائے گئے نکات سے قیام پاکستان سے لے کر آج تک قانون کے دائرے میں شروع کیے گئے منصوبوں کے حوالے سے سنگین صورت حال جنم لے گی۔‘
پنجاب حکومت نے سنگل بنچ کے فیصلے کو اپنی اپیل میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ’سنگل بنچ نے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 230 کے نفاذ کا غلط مفہوم پیش کیا ہے۔‘
’آئین کے مطابق نگران حکومت سابقہ حکومت کے کسی نامکمل اقدام یا پالیسی کی تکمیل کرسکتی ہے۔ کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ منصوبہ نگران حکومت نے شروع نہیں کیا بلکہ یہ منتخب حکومت کا شروع کیا گیا عوامی مفاد کا انتہائی اہم منصوبہ ہے۔ عدالتی فیصلہ کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے، اس میں متعدد قانونی سقم موجود ہیں۔‘
لاہور ہائی کورٹ گزشتہ مہینے پاکستانی فوج اور پنجاب حکومت کے مابین 10 لاکھ ایکڑ اراضی لیز پر دینے کے معاہدے کو غیرآئینی، غیرقانونی اور غیرشفاف قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا۔
عدالت نے اپنے حکم میں صوبے کے بورڈ آف ریوینیو کو کہا تھا کہ سرکاری کاغذات میں زمین کی ملکیت فوج سے ہٹا کر واپس حکومت کے نام منتقل کر کے رپورٹ 15 روز میں اسی عدالت میں پیش کی جائے۔
ریاستی وسائل پر حق صرف عوام کا ہے: عدالت
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس عابد حسین چٹھہ نے اپنے طویل حکم میں یہ بھی کہا تھا کہ ’پاکستان فوج کے پاس کارپوریٹ فارمنگ جیسے معاملات میں الجھنے کے لیے آئینی اور قانونی جواز نہیں ہے۔‘
لاہور ہائی کورٹ نے آئینی شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا ’ریاستی وسائل پر حق صرف اور صرف عوام کا ہے۔ اور حکومت کے پاس ریاستی وسائل ایک امانت کی طرح ہیں۔ ریاستی دولت چند ہاتھوں میں مرتکز کرنا آئین کی روح کے خلاف ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے لیز کا عمل غیرشفاف اور مخصوص گروہ کو نوازنے کے مترادف ہے۔‘
پبلک انٹرسٹ لا ایسوسی ایشن نامی ایک تنظیم نے پنجاب حکومت کی جانب سے فوج کو 10 لاکھ ایکڑ اراضی لیز پر دینے کے عمل کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔