پاکستاناہم خبریں

پنجاب کی جیلیں شدید اوور کراؤڈنگ کا شکار، قیدیوں کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر گئی

سیکشن 39 کے تحت اب 200 گرام سے زائد ہیروئن، مورفین یا دیگر سخت نشہ آور اشیاء کے ساتھ گرفتاری ناقابلِ ضمانت جرم بن چکی ہے۔

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
لاہور:
پنجاب بھر کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد پہلی بار خطرناک حد کو عبور کرتے ہوئے 70 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جس نے نہ صرف جیلوں کے نظام پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق، عدالتی پالیسیوں اور قانون سازی پر بھی نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، پنجاب کی 45 فعال جیلوں کی مجموعی گنجائش صرف 38 ہزار 317 قیدیوں کی ہے، لیکن اس وقت 72 ہزار 117 قیدی جیلوں میں قید ہیں۔ اس تعداد میں 70 ہزار مرد، 1360 خواتین اور 893 کم عمر قیدی شامل ہیں۔ گزشتہ دو ماہ میں سات ہزار سے زائد قیدیوں کا اضافہ ہوا ہے، جو صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

اہم جیلوں میں بدترین اوور کراؤڈنگ

  • لاہور کی کیمپ جیل: گنجائش 2000، موجودہ قیدی 7200

  • اڈیالہ جیل (راولپنڈی): گنجائش 2174، موجودہ قیدی 8174

  • لاہور کی دونوں جیلیں مجموعی طور پر: گنجائش 4300، موجودہ قیدی 10,500+

یہ اعداد و شمار جیلوں میں بڑھتے ہوئے دباؤ، صحت و صفائی، خوراک، سیکیورٹی، اور قانونی رسائی جیسے اہم شعبوں پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔


اوور کراؤڈنگ کی اصل وجہ: منشیات کے قوانین میں ترمیم

ماہرین کے مطابق جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں یہ غیر معمولی اضافہ پنجاب حکومت کی جانب سے 2024 میں منشیات کے قوانین میں کی گئی سختیوں کا براہِ راست نتیجہ ہے۔

پس منظر: قانون میں کیا بدلا؟

  • کنٹرول آف نارکوٹک سبسٹینس ایکٹ 2009 میں ترمیم کی گئی۔

  • سیکشن 39 کے تحت اب 200 گرام سے زائد ہیروئن، مورفین یا دیگر سخت نشہ آور اشیاء کے ساتھ گرفتاری ناقابلِ ضمانت جرم بن چکی ہے۔

  • عدالتیں اب صرف الزام پر ضمانت نہیں دے سکتیں، بلکہ ملزم کی تاریخ، زیر حراست مواد کی نوعیت اور دیگر پہلوؤں کا سختی سے جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے۔

  • سیکشن 38 اور 40 کے تحت مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتوں کا دائرہ وسیع کیا گیا۔

نتیجہ؟

ترمیم کے بعد عدالتوں میں زیرِ التوا منشیات کے مقدمات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اور ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان براہ راست جیلوں میں بھیجے جا رہے ہیں۔ محکمہ داخلہ پنجاب کے ترجمان کے مطابق صرف ایک سال میں منشیات کے قیدیوں کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔


حکومتی اقدامات: نئی جیلوں کی تعمیر، کیا یہ کافی ہے؟

پنجاب حکومت نے جیلوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے کچھ اقدامات ضرور کیے ہیں:

  • گزشتہ سال 42 جیلیں تھیں، اس سال 45 فعال ہیں

  • چار نئی جیلیں زیر تعمیر ہیں، جنہیں دو منزلہ بنانے کا منصوبہ ہے تاکہ گنجائش میں اضافہ ہو

  • خواتین قیدیوں کے لیے لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی میں مخصوص جیلوں کی تعمیر جاری ہے

  • ساڑھے چھ ہزار قیدیوں کے لیے اضافی جگہ فراہم کرنے کی منصوبہ بندی

  • پانچ ارب روپے کا "محفوظ جیل منصوبہ” منظور کیا گیا ہے تاکہ جیلوں کی نگرانی اور نظم و نسق بہتر ہو

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات عارضی ریلیف تو دے سکتے ہیں، مگر مسئلے کا بنیادی حل نہیں۔


ماہرین کی رائے: قانون میں نرمی، پیرول اور متبادل انصاف کی ضرورت

جسٹس فار پیس کی سربراہ سارہ بلال کا کہنا ہے:

"جیلوں کا زیادہ بنانا وقتی حل ہے۔ اصل حل یہ ہے کہ معمولی جرائم کے قیدیوں کو پیرول پر رہا کیا جائے اور ضمانت کے قوانین میں نرمی لائی جائے۔”

انسانی حقوق کے کارکن محمد شعیب یاد دلاتے ہیں:

"2020 میں کورونا کے دوران پنجاب حکومت نے 7 ہزار قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیا تھا، جس سے جیلوں پر دباؤ کم ہوا۔
آج بھی منشیات کے چھوٹے مقدمات میں ضمانت کی راہ کھولی جائے تو ہزاروں خاندان متاثر ہونے سے بچ سکتے ہیں۔”


اوور کراؤڈنگ کے خطرناک اثرات

  • بیماریوں کے پھیلنے کا شدید خطرہ

  • نفسیاتی دباؤ میں اضافہ، خاص طور پر کم عمر اور خواتین قیدیوں پر

  • جیل عملے پر بوجھ بڑھ جانا

  • تشدد اور لڑائی جھگڑوں میں اضافہ

  • اصلاح کی بجائے مجرمانہ رجحانات میں پختگی


آگے کا راستہ: پالیسی میں توازن کی ضرورت

اس وقت پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی انسداد منشیات پالیسی میں توازن پیدا کرے۔ یقینی طور پر معاشرے کو منشیات سے پاک کرنا ضروری ہے، لیکن قانون کی سختی کی آڑ میں ہزاروں افراد کو جیلوں میں بھیج دینا اور ضمانت کا دروازہ بند کرنا عدل کے اصولوں سے متصادم ہو سکتا ہے۔

ایسی اصلاحات ضروری ہیں جو معاشرتی انصاف، عدالتی کارکردگی اور انسانی وقار – تینوں کو یکجا کریں۔ جیلوں کو سزا کے ساتھ ساتھ اصلاح گاہ کے طور پر بھی دیکھنا ہوگا۔


نتیجہ

پنجاب کی جیلوں میں اوور کراؤڈنگ کا بحران کسی ایک مسئلے کا نتیجہ نہیں بلکہ قانون، پالیسی، عدلیہ اور نظامِ انصاف کے مختلف پہلوؤں میں ہم آہنگی نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ جب تک قانون سازی، عدالتی نرمی، اور متبادل انصاف کے نظام کو یکجا کر کے ایک جامع پالیسی نہیں اپنائی جاتی، نئی جیلیں بنانا محض پانی پر لکیر کھینچنے کے مترادف ہوگا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button