کاروبار

’ہماری زمینوں سے بجلی کے کھمبے ہٹائے جائیں،‘ کشمیر کے بجلی صارفین کا انوکھا مطالبہ

پیر کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر راولاکوٹ کے نواحی گاؤں کے مکینوں نے محکمہ برقیات کو ایک درخواست دی ہے جس میں انہوں نے اپنے علاقے سے بجلی کی تمام تنصیبات ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف احتجاجی دھرنوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک ہزاروں کے تعداد میں بجلی کے بل نذرِ آتش کرنے کے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔
پیر کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر راولاکوٹ کے نواحی گاؤں کے مکینوں نے محکمہ برقیات کو ایک درخواست دی ہے جس میں انہوں نے اپنے علاقے سے بجلی کی تمام تنصیبات ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
دریک نامی گاؤں کے عمائدین کی جانب سے راولاکوٹ کے ایکسیئن برقیات کے دفتر میں جمع کرائی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ‘حکومت نے اس علاقے میں جب کھمبوں، ٹرانسفارمرز اور تاریں نصب کیں تو اس وقت مقامی افراد سے کوئی معاہدہ نہیں کیا اور گزشتہ 42 برس میں شاخ تراشی کی آڑ میں لاکھوں روپے مالیت کے درخت کاٹے گئے۔‘
درخواست کے مطابق ’ان کھمبوں اور تاروں کے نیچے کسی کو تعمیرات کی اجازت بھی نہیں ہے اور آج تک ان تنصیبات کا کوئی کرایہ یا معاوضہ بھی ادا نہیں کیا گیا۔‘
درخواست گزاروں نے گزشتہ برسوں میں شہریوں کی ملکیتی زمینوں میں نصب گئے گئے ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں کے کھمبوں کی مثال دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ ‘انہوں نے اپنے کھمبے نصب کرتے وقت نا صرف مقامی افراد سے معاہدے کیے بلکہ وہ ماہانہ بنیادوں پر باقاعدگی سے کرایہ بھی ادا کر رہے ہیں جبکہ محکمہ برقیات زمین کے مالکوں کو کچھ بھی ادا نہیں کیا بلکہ الٹا ان کا نقصان کیا ہے۔‘
درخواست میں بجلی کے بلوں کے ساتھ ’بے تحاشا ٹیکس‘ لینے پر بھی تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ ’کشمیر کے صارفین ہائیڈل پاور پلانٹس کی بجلی استعمال کرتے رہے ہیں لیکن ان سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔‘
‘اس کے علاوہ ان گنت مدات میں صارفین کی جیبوں سے ناجائز طریقے سے رقم بٹوری جاتی ہے لہٰذا ہم اتنی مہنگی بجلی کے استعمال کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘
درخواست گزاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ ‘ایک ماہ کے اندر اندر ان تمام زمینوں سے بجلی کا سیٹ اپ (کھمبے، ٹرانسفارمر اور تاریں) ہٹائی جائیں اور پھر ہمارے بجلی کے کنکشن ری سٹور کیے جائیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو محکمہ صارفین کو آئندہ بجلی کے بل بھیجنے کا مجاز نہیں ہو گا۔‘
درخواست کے ساتھ نو افراد کے نام اور ان دستخط بھی موجود ہیں جن کی زمینوں میں مجموعی طور پر محکمہ برقیات نے 39 بجلی کے کھمبے نصب کر رکھے ہیں۔
توصیف اختر ان نو درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی زمین سے بجلی کی تمام تنصیبات ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
توصیف اختر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم بجلی کے بلوں کے ساتھ ناجائز ٹیکسز ادا کر کر کے تنگ آ چکے ہیں۔ ہماری زمینوں پر محکمہ برقیات نے لائینیں بچھائی ہیں لیکن ہمارے ساتھ اس بارے میں کوئی معاہدہ نہیں کیا۔‘
‘ہم نے بجلی کے میٹرز بھی خود خرید رکھے ہیں۔ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، اس کے شہریوں پر ایسے ٹیکسز نہیں لگائے جا سکتے۔ ہم یہ سب افورڈ نہیں کر سکتے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں ان تنصیبات کا 42 برس کا کرایہ بھی ادا کیا جائے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہم نے آج ایکسیئن برقیات کو درخواست جمع کرا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کھمبے اور تاریں ہٹانا میرے اختیار میں نہیں ہے البتہ میں یہ درخواست حکام بالا تک پہنچا دوں گا۔’
گزشتہ کئی ہفتوں سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بجلی کے بھاری بلوں خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
کشمیر کے مختلف شہروں میں عوامی ایکشن کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں جو صارفین کو بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ کرنے پر قائل کر رہی ہیں۔
ریاستی دارالحکومت مظفرآباد کی عوامی ایکشن کمیٹی نے بجلی کے بلوں میں اضافے، آٹے کی سبسڈی کی کمی اور مہنگائی کے خلاف 31 اگست کو ڈویژن بھر میں پہیہ جام اور شٹر ڈاون ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ 5 ستمبر کو میرپور ڈویژن میں بھی مکمل ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں میں بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف گھریلو صارفین اور تاجر احتجاج کر رہے ہیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں بھی اس احتجاج کی حمایت کر رہی ہیں لیکن نمایاں سیاسی جماعتوں نے ابھی تک اس مسئلے پر کوئی واضح اعلان نہیں کیا ہے۔
پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے سنیچر کوبجلی کے بھاری بلوں کا نوٹس لے کر اجلاس بھی طلب کیا تھا تاہم ابھی تک صارفین کے لیے کسی قسم کے ریلیف کا اعلان نہیں کیا گیا۔
انہوں نے اجلاس میں متعلقہ حکام کو 48 گھنٹوں میں بجلی کے زائد بلوں میں کمی کے لیے ٹھوس اقدامات مرتب کر کے پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button