
سیلابی پانی کا چیلنج اور ڈیموں کی حکمتِ عملی: فطرت دوست حل یا ماحولیاتی بحران؟
شہری علاقوں میں نکاسی آب کے مسائل ضرور تھے، لیکن وہ تباہ کن نہیں ہوتے تھے۔ کسان مون سون کے تسلسل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی فصلوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔
رپورٹ وائس آف جرمنی پاکستان چپٹر
موسمیاتی تبدیلی اور غیر متوازن مون سون: ایک نئی حقیقت
گزشتہ تین سے چار دہائیوں میں مون سون کا نظام غیر معمولی طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ ماضی میں مون سون ایک پیش گوئی کے قابل موسم تھا۔ بارشیں آہستہ آہستہ اور مسلسل برستی تھیں، جس سے زیرِ زمین پانی کی سطح میں اضافہ ہوتا اور فصلوں کو بھرپور فائدہ پہنچتا۔ لیکن آج کا مون سون نہ صرف غیر متوازن بلکہ شدت پسند ہو چکا ہے۔
کہیں خشک سالی، کہیں گھنٹوں میں تباہ کن بارشیں، "کلاؤڈ برسٹ” اور "فلیش فلڈز” جیسے الفاظ اب ہمارے روزمرہ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، جن سے ہمیں ماضی میں زیادہ واسطہ نہیں پڑتا تھا۔
ماضی کے مون سون کا فائدہ
قدرتی نظام کے تحت، ماضی میں ہونے والی متوازن بارشوں کا فائدہ یہ تھا کہ ندی نالے اور دریا آہستہ آہستہ بھر جاتے تھے۔ ہلکی ہلکی بارشیں کئی دنوں تک جاری رہتی تھیں، جس سے نہ صرف فصلیں پروان چڑھتی تھیں بلکہ زیرِ زمین آبی ذخائر بھی بھر جاتے تھے۔
شہری علاقوں میں نکاسی آب کے مسائل ضرور تھے، لیکن وہ تباہ کن نہیں ہوتے تھے۔ کسان مون سون کے تسلسل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی فصلوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔ زراعت براہِ راست ان بارشوں پر انحصار کرتی تھی اور انہیں بھرپور فائدہ پہنچتا تھا۔
آج کا مون سون: خطرے کی گھنٹی
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موسموں کی شدت اور بے ترتیبی کا تعلق براہِ راست ماحولیاتی تبدیلی (Climate Change) سے ہے۔ پاکستان اس کا عملی تجربہ 2010 اور 2022 کے تباہ کن سیلابوں کی صورت میں کر چکا ہے۔
گرمی کی شدت میں اضافہ
گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا
غیر متوقع اور شدید بارشیں
یہ تمام عوامل مل کر پاکستان کے لیے ڈبل چیلنج بن چکے ہیں:
ایک طرف خشک سالی
دوسری طرف تباہ کن سیلاب
شہری سیلاب: بڑھتے خطرات اور کمزور نظام
شہروں میں اربن فلڈنگ ایک نیا بحران ہے۔ درختوں کا بے دریغ کٹاؤ، پکی سڑکیں، کنکریٹ کی عمارتیں، ناقص نکاسی کا نظام اور ناپید جنگلات — یہ سب عوامل بارش کے پانی کو زمین میں جذب ہونے نہیں دیتے۔ نتیجتاً، بارش کا پانی طوفانی ریلے میں تبدیل ہو کر جانی و مالی نقصان کا باعث بنتا ہے۔
حل کیا ہے؟ ڈیم یا کوئی متبادل نظام؟
ماحولیاتی تبدیلیوں کے اس دور میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں سیلابوں سے نمٹنے کے لیے بڑے ڈیمز کی طرف جانا چاہیے، یا کوئی فطرت دوست متبادل حکمتِ عملی اپنانی چاہیے؟
ڈیمز کے حامیوں کا مؤقف
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جس کا مستقبل پانی سے جڑا ہے۔ ڈیمز کے حامی ماہرین اور پالیسی ساز کہتے ہیں:
ڈیمز میں سیلابی پانی ذخیرہ کر کے زراعت، پینے اور صنعتی ضروریات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ان سے ماحول دوست اور سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
اچانک آنے والا پانی ڈیم میں محفوظ ہو کر تباہی سے بچا سکتا ہے۔
ڈیمز کی تعمیر روزگار کے مواقع بھی پیدا کرتی ہے۔
ڈیمز کے مخالفین کے تحفظات
دوسری جانب، کئی ماہرین ڈیمز کو ایک ناپائیدار اور ماحولیاتی طور پر نقصان دہ حل سمجھتے ہیں:
ڈیمز پانی کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
ڈیلٹا سکڑ جاتے ہیں، آبی حیات متاثر ہوتی ہے۔
ہزاروں افراد کو اپنے گھروں سے بے دخل ہونا پڑتا ہے۔
پانی کی ملکیت پر صوبائی تنازعات جنم لیتے ہیں۔
معاشی بوجھ بہت زیادہ ہوتا ہے؛ ایک بڑے ڈیم پر اربوں ڈالر خرچ آتا ہے۔
فطرت دوست متبادل حل
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہم مقامی سطح پر چھوٹے مگر مؤثر اقدامات کریں تو سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے اور تباہی کو روکنے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں:
✅ چیک ڈیمز اور چھوٹے آبی ذخائر
چھوٹے سائز کے سادہ سٹرکچر، جو سیلابی پانی کو تھام کر زمین میں جذب کرتے ہیں۔
✅ واٹر ریچارج زونز
ایسے علاقے جہاں زمین میں پانی واپس جذب ہو کر زیر زمین آبی ذخائر کو بھر سکے۔
✅ ویٹ لینڈز کی بحالی
دلدلی علاقے جو قدرتی طور پر پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
✅ دریاؤں کے کنارے بفر زونز
دریاؤں کے کنارے خالی چھوڑے جائیں تاکہ اضافی پانی ان میں سما سکے۔
✅ شہری علاقوں میں رین واٹر ہارویسٹنگ
بارش کے پانی کو گھروں، عمارتوں اور سڑکوں سے جمع کر کے محفوظ کیا جائے۔
✅ جدید آبپاشی نظام
ڈریپ ایریگیشن اور اسپرنکلر سسٹمز جیسے ٹیکنالوجی بیسڈ حل۔
قانون سازی اور پالیسی میں اصلاحات کی ضرورت
کسی بھی منصوبے سے پہلے ماحولیاتی اثرات کا مکمل تجزیہ (EIA) ضروری ہونا چاہیے۔ صرف وہی منصوبے آگے بڑھیں جو ماحول سے ہم آہنگ ہوں۔ ساتھ ہی، جنگلات کے رقبے میں فوری اضافہ، زمین کی حفاظت اور آبی نظام کی بہتری کے لیے جامع حکمت عملی ناگزیر ہے۔
کیا ہمیں سوچنے کا وقت آ گیا ہے؟
پاکستان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں آبی تحفظ، زراعت، ماحولیاتی توازن اور شہری زندگی، سب خطرے میں ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا:
کیا ہم ماضی کی مہنگی، ناپائیدار اور متنازعہ پالیسیوں پر قائم رہنا چاہتے ہیں؟
یا ایک نئی، فطرت دوست اور پائیدار حکمتِ عملی کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں؟
جو راستہ ہم آج چنیں گے، وہی ہمارے بچوں کا مستقبل طے کرے گا۔