کالمزپیر مشتاق رضوی

امریکہ کی افغانستان پر دوبارہ چڑھائی کیوں ؟؟ …..۔پیر مشتاق رضوی

بگرام کا کنٹرول اسرائیل کی مکمل سیکیورٹی اور معاشی برتری کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ جبکہ اس حوالے چین نے اپنے دوٹوک مؤقف کا اظہار کیا ہے کہ کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے

ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ کا تعمیر کردہ بگرام کا ائیرفیلڈ واپس امریکہ کےحوالے نہ کیا گیا تو افغانستان کو سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں اس دھمکی سے ظاہر ہوتا ہے کہ بگرام ائیرفیلڈکی حوالگی کے معاملے پر افغان طالبان سے مذکرات جاری تھے لیکن طالبان مزاحمت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ٹرمپ کو سیدھی دھمکی دینی پڑی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں کہا کہ امریکہ کو افغانستان کا بگرام ایئربیس دوبارہ قبضے میں لینا چاہیے، کیونکہ یہ چین کے ایٹمی منصوبوں کے قریب واقع ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بگرام دنیا کی بڑی طاقتوں کے بیچ ایک اسٹریٹیجک مقام رکھتا ہے۔
یہ بیس نہ صرف چین کے حساس ایٹمی پروگرام کے قریب ہے بلکہ ایران، روس، بھارت اور پاکستان تک بھی امریکہ کو براہِ راست رسائی دیتا ہے۔ روس کے اہم شہروں تک اس کی رسائی 2,500 کلومیٹر سے بھی کم ہے، جبکہ کہوٹہ صرف 400 کلومیٹر دور ہیں۔ اسی طرح یہ خلیج فارس اور بحیرۂ عرب تک فضائی راستے بھی کھول دیتا ہے افغانستان کے اندر موجود تانبے، سونے، یورینیم اور دیگر نایاب معدنیات، جن کی مالیت تقریباً 3 ٹریلین ڈالر ہے، امریکہ کے لیے مزید کشش رکھتی ہیں۔ بگرام کا کنٹرول اسرائیل کی مکمل سیکیورٹی اور معاشی برتری کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ جبکہ اس حوالے چین نے اپنے دوٹوک مؤقف کا اظہار کیا ہے کہ کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان میں بگرام ائیربیس واپس لینے کے بیان سے متعلق چینی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ چین افغانستان کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کرتا ہےامریکی صدر ٹرمپ کے بگرام ائیربیس واپس لینے کے بیان سے متعلق چینی وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹرسے صحافی نے سوال کیا۔ اس پر ان کا کہنا تھاکہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیےچینی وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے کہا کہ ہم خطے میں کشیدگی یا تناؤ کو سپورٹ نہیں کریں گے، امید رکھتے ہیں کہ تمام فریق خطے کے امن اور استحکام کے لیے تعمیری کردار ادا کریں گے
خیال رہے کہ گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ افغانستان میں بگرام فوجی ائیر بیس واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ بیس اس لیے بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ اس مقام سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار تیار کرتا ہےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان کے بگرام ایئر بیس پر دوبارہ قبضہ کر لے کیونکہ یہ چین کے نیوکلیئر تنصیبات کے قریب ہے اور سٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے۔ طالبان نے امریکی مطالبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ افغانستان مکمل طور پر خود مختار ہے اور کوئی بھی امریکی قبضہ قبول نہیں کرے گا۔ طالبان نے خبردار کیا ہے کہ کوئی بھی جارحیت سخت جواب دے گی۔ پاکستان کو بگرام ایئر پورٹ پر امریکی قبضے سے سنگین تر خدشات لاحق ہیں پاکستان کو امریکی اور طالبان کے درمیان ممکنہ تصادم میں الجھنا پڑ سکتا ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات پر اثر: امریکہ کے بگرام قبضے سے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) پر دباؤ بڑھ سکتا ہے، اور چین پاکستانی سرحدی علاقوں میں حساسیت محسوس کر سکتا ہے افغانستان میں امریکی دوبارہ موجودگی سے شدت پسندی کی لہر بڑھ سکتی ہے جو پاکستان کی سرحدوں پر بے چینی پیدا کرے گی۔ایران، چین، اور افغانستان کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں، جس سے پاکستان کی سفارتی گنجائش کم ہو سکتی ہے۔ مختصر یہ کہ پاکستان کو علاقائی امن، سرحدی سکیورٹی، اور سفارتی توازن میں پیچیدگیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ امریکہ بہادر کی حسب سابق یہ خواہش ہو گی کہ اگر امریکہ بگرام ایئرپورٹ پر دوبارہ قبضہ کرتا ہے تو پاکستان پھر سے امریکہ کے لئے فرنٹ لائن سٹیٹ کا رول ادا کرے کہ بگرام کا کنٹرول حاصل کرنے میں امریکہ کو پاکستان کی مدد کی ضرورت ہوگی کیونکہ طالبان اس بیس کو براہ راست نہیں دیں گے۔جنوبی ایشیاء میں ایران کی موجودگی کو ہر گز نظر اندز نہیں کیا جاسکتا ایران امریکی فوج کی افغانستان میں دوبارہ واپسی کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور اس کی مخالفت کرے گا۔ وہ طالبان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرے گا تاکہ امریکی اثر کو محدود رکھا جا سکے۔ ایران اپنے حامی گروہوں کو افغانستان میں سرگرم رکھے گا ایران امریکی موجودگی پر دباؤ ڈالے اور امریکی جارحیت کو ہر ممکن کوشش کرے گا اس کے علاوہ پاکستان بگرام پر امریکی قبضے کو چین اور روس کے بڑھتے اثر کے خلاف ایک چیلنج سمجھے گا اور اپنی سفارتی کوششوں سے علاقائی طاقتوں کے ساتھ توازن قائم رکھے گا۔جبکہ پاکستان افغانستان میں امن اور استحکام چاہتا ہے تاکہ سرحد پار دہشتگردی کو روکا جا سکے، اس لیے ممکنہ امریکی فوجی موجودگی میں مذاکرات کو اہمیت دی جائے گی۔ پاکستان امریکہ اور طالبان دونوں کے ساتھ رابطے رکھے گا تاکہ اپنے قومی مفادات اور سیکیورٹی خدشات محفوظ رکھے جا سکیں۔ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت مضبوط کرے گا تاکہ عسکری تنازعات یا دہشتگردی کی روک تھام ممکن ہو سکے عوامی اور سیاسی ردعمل کی حساسیت:_ پاکستان اپنے عوامی جذبات کا خیال رکھے گا اور امریکی فوجی موجودگی کی حمایت کرنے سے گریز کرے گا۔ پاکستان ایک متوازن حکمت عملی اپنائے گا جو علاقائی طاقتوں کے توازن، افغان امن، اور اپنی سیکیورٹی کے تحفظ پر مرکوز ہوگی۔ : پاکستانی حکومت نے بگرام ایئرپورٹ پر ممکنہ امریکی قبضے پر محتاط مؤقف اختیار کیا ہے۔ علاقائی امن و استحکام کی اہمیت پر زور دینے کے ساتھ ہی پاکستان افغانستان کی خودمختاری اور خطے میں امن بحالی کے حق میں ہے اور تنازع میں مداخلت سے گریز کا عندیہ دیا ہے: بگرام ائرپورٹ پر ممکنہ امریکی قبضے سے ایک نئی عالمی جنگ کا خطرہ واقعی بڑھ سکتا ہے کیونکہ یہ خطہ پہلے ہی حساس ہے، اور امریکہ-چین کشیدگی کو شدت مل سکتی ہے، خاص کر جب بیس چین کے نیوکلیئر زون کے قریب ہے۔ طالبان اور افغانستان کی خودمختاری کے تناظر میں اس قبضے سے علاقائی طاقتیں، خاص طور پر روس، چین اور ایران سخت ردعمل دے سکتی ہیں۔ امریکی فوج کی افغان میں واپسی سے مشرق وسطیٰ و وسطی ایشیا میں کشیدگی بڑھنے اور نئی عسکری ٹکراؤ کی صورت حال بننے کا خدشہ ہے۔ یعنی یہ صورتحال عالمی طاقتوں کے مابین تنازع کو بھڑکا سکتی ہے، جو بڑی جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔: اقوام متحدہ کا کردار اس صورت میں اہم ہوگا اس سلسلے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل ممکنہ تنازعے کو روکنے کے لئے ثالثی اور سفارتی دباؤ ڈال سکتی ہے۔ وہ خطے میں تنازعے کے حل کے لئے امن مذاکرات اور ثالثی کی حمایت کرے گی
اقوام متحدہ انسانی حقوق اور خودمختاری کے احترام کی یقین دہانی اور کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرے گی۔
یورپی ممالک نے بگرام ائرپورٹ پر امریکی قبضے کی دھمکی پر زیادہ سخت ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، لیکن وہ علاقائی امن و استحکام کے حق میں اور افغانستان کی خودمختاری کی حمایت کرتے ہیں۔ یورپ خاص طور پر طالبان کے موقف کا احترام کرتا ہے اور امریکی فوجی مداخلت کے خلاف محتاط رویہ اختیار کر رہا ہے، کیونکہ وہ کشیدگی بڑھنے سے بچنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب، امارات اور خلیجی ریاستیں افغان امن اور استحکام کی حمایت کرتی ہیں، اور امریکی فوجی مداخلت کو زیادہ پسند نہیں کرتی ہیں عرب ممالک زیادہ تر افغانستان کی خودمختاری اور امن کی ترجیح دیتے ہیں، امریکہ کا کھلا ساتھ کم ہی دیتے ہیں۔ فرید زکریا کی کتاب "دی پوسٹ امریکن ورلڈ” کے مطابق، امریکہ کا مستقبل طاقت میں کمی اور عالمی اثر و رسوخ کی تقسیم کی طرف ہے۔ امریکہ اکیلا عالمی سپر پاور نہیں رہے گا بلکہ چین، یورپ اور دیگر ابھرتے ہوئے علاقوں کے ساتھ عالمی اقتدار شیئر کرے گا۔ امریکہ کی دنیا میں اہمیت کم نہیں ہوگی، لیکن اسے ایک مشترکہ عالمی نظم میں شامل ہونا ہوگا۔ بگرام ائرپورٹ پر امریکی قبضے کے عزائم روکنے کے لیے درج ذیل حکمت عملی مددگار ہو سکتی ہے علاقائی طاقتوں کا مشترکہ دباؤ اور سفارتی مداخلت تاکہ امریکہ کو خطے سے باہر رکھنے پر زور دیا جائے۔ پاکستان اور افغانستان کی خودمختاری کا عالمی سطح پر دفاع اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کی حمایت حاصل کرنا۔ عالمی سطح پر مؤثر سفارتکاری، مقامی اور علاقائی امن مذاکرات کو تقویت دے کر کشیدگی کمی میں کمی لا کرافغانستان میں دوبارہ امریکی عسکری جارحیت کو روکا جا سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button