
کوئٹہ (نمائندہ خصوصی) – ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان حمزہ شفقات نے کہا ہے کہ بی این پی کے جلسے سے متعلق انتظامیہ نے منتظمین کو بروقت جلسہ ختم کرنے کی تین بار ہدایت دی، تاہم ہدایات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے افسوسناک دھماکے میں 15 افراد جاں بحق اور 45 زخمی ہوئے۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے بتایا کہ جلسے کی اجازت صرف سہ پہر 3 بجے سے مغرب تک دی گئی تھی، لیکن جلسہ اندھیرا ہونے تک جاری رہا، جس سے سیکیورٹی خدشات بڑھ گئے۔ ان کے مطابق دھماکہ جلسہ گاہ سے 500 میٹر دور قبرستان کے قریب ایک کم روشنی والے مقام پر ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا، جس میں 8 کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ حملہ آور کی عمر 30 سال سے کم تھی اور اس کے اعضاء مل گئے ہیں لیکن شناخت تاحال ممکن نہیں ہو سکی۔
ایڈیشنل سیکریٹری نے کہا کہ جلسے سے قبل واضح تھریٹس جاری کیے گئے تھے، اگر جلسہ وقت پر ختم کر دیا جاتا تو نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں دفعہ 144 نافذ تھی، تاہم بی این پی کے اصرار پر خصوصی اجازت دی گئی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ آئندہ مغرب کے بعد کسی بھی جلسے یا اجتماع کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
حمزہ شفقات نے مزید کہا کہ حکومت نے شہدا کے لواحقین کے لیے 15 لاکھ روپے فی کس، شدید زخمیوں کے لیے 5 لاکھ اور معمولی زخمیوں کے لیے 2 لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے۔
ان کے مطابق رواں ماہ مزید دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں، اور 12 ربیع الاول کے جلوس بھی ممکنہ ہدف ہو سکتے ہیں، اس لیے سیکیورٹی ادارے مکمل طور پر الرٹ ہیں۔

جلسے کی اجازت صرف مغرب تک تھی
بدھ کے روز پولیس اور سیکیورٹی حکام کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حمزہ شفقات نے بتایا کہ بی این پی (بلوچستان نیشنل پارٹی) کو سہ پہر 3 بجے سے مغرب تک جلسے کی اجازت دی گئی تھی۔ تاہم، بارہا کی درخواست کے باوجود جلسہ اندھیرا ہونے تک جاری رہا، جس کے باعث دہشت گردوں کو موقع ملا۔
دھماکہ جلسہ گاہ سے 500 میٹر دور قبرستان کے قریب ہوا
ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے بتایا کہ دھماکہ خودکش حملہ تھا، جس میں تقریباً 8 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ یہ دھماکہ جلسہ گاہ سے تقریباً 500 میٹر دور ایک کم روشنی والے علاقے میں واقع قبرستان کے قریب ہوا۔ حملہ آور کی عمر 30 سال سے کم بتائی جا رہی ہے، تاہم اس کی شناخت تاحال نہیں ہو سکی۔
سیکیورٹی خدشات کے باوجود جلسہ جاری رکھا گیا
انہوں نے مزید کہا کہ جلسے سے قبل واضح تھریٹس موجود تھے جن سے منتظمین کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔ ان کے مطابق اگر جلسہ مقررہ وقت پر ختم کیا جاتا، تو نقصان کو کم کیا جا سکتا تھا۔
پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی
جلسے کی سیکیورٹی کے لیے 112 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ دھماکے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق اور دو زخمی ہوئے، جس سے واضح ہے کہ سیکیورٹی فورسز اپنی ذمہ داریوں پر موجود تھیں۔
دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر تشویش
حمزہ شفقات نے بتایا کہ صوبے میں پہلے ہی دفعہ 144 نافذ تھی اور عوامی اجتماعات پر پابندی عائد تھی۔ تاہم، بی این پی کے اصرار پر برسی کے موقع پر جلسے کی عارضی اجازت دی گئی۔ انہوں نے واضح کیا کہ آئندہ مغرب کے بعد کسی بھی جلسے یا عوامی اجتماع کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
حکومت کی جانب سے متاثرین کے لیے مالی امداد کا اعلان
دھماکے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کے لیے فی کس 15 لاکھ روپے، شدید زخمیوں کے لیے 5 لاکھ اور معمولی زخمیوں کے لیے 2 لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اس واقعے کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں اور اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے۔
سیاسی رہنماؤں کو سیکیورٹی کی فراہمی پر قانون سازی کا عندیہ
حمزہ شفقات نے کہا کہ تمام سیاسی رہنماؤں کو سیکیورٹی دینا ممکن نہیں، اسی لیے انہیں پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز اور اسلحہ رکھنے کے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں۔ عنقریب ایک قانون صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جس کے تحت طے کیا جائے گا کہ کس شخصیت کو کس درجے کی سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔
مزید حملوں کا خدشہ، سیکیورٹی ادارے الرٹ
ان کا کہنا تھا کہ رواں ماہ کے دوران مزید دہشت گرد حملوں کا خدشہ موجود ہے۔ خاص طور پر 12 ربیع الاول کے جلوس ممکنہ اہداف ہو سکتے ہیں۔ نیکٹا سمیت سیکیورٹی اداروں کو 22 تھریٹس موصول ہو چکی ہیں، جن کے خلاف مؤثر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ 800 سے زائد دہشتگردی کے منصوبے ناکام
حمزہ شفقات کے مطابق گزشتہ مہینوں میں سیکیورٹی اداروں نے 800 سے زائد دہشت گردی کے منصوبے ناکام بنائے۔ جعفر ایکسپریس، مستونگ، سوراب اور کوئٹہ میں متعدد حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جنہیں بروقت کارروائی سے روکا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال اگست میں 85 واقعات میں 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے، جبکہ اس سال سیکیورٹی اداروں کی بروقت کارروائیوں سے سویلین ہلاکتوں کو روکا گیا ہے۔