اطہر قادرحسنکالمز

میاں نواز شریف کامیثاق مفاہمت(غیر سیاسی باتیں…….اطہر قادرحسن)

میاں نواز شریف لگ بھگ گزشتہ چار برس سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے لندن میں مقیم ہیں اور لندن میں بیٹھ کر پاکستان کی سیاست میں داؤ پیچ آزما رہے ہیں وہ اپنی خود ساختہ جلا وطنی کے دوران مسلسل اس تگ و دو میں رہے ہیں کہ کسی طرح وہ پاکستانی سیاست میں بطور حکمران کامیاب واپسی کی راہ ہموار کر سکیں

پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے لندن میں اعلان کیا ہے کہ ان کی پارٹی کے قائد میاں نواز شریف اکتوبر میں پاکستان واپس آرہے ہیں۔ میاں نواز شریف لگ بھگ گزشتہ چار برس سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے لندن میں مقیم ہیں اور لندن میں بیٹھ کر پاکستان کی سیاست میں داؤ پیچ آزما رہے ہیں وہ اپنی خود ساختہ جلا وطنی کے دوران مسلسل اس تگ و دو میں رہے ہیں کہ کسی طرح وہ پاکستانی سیاست میں بطور حکمران کامیاب واپسی کی راہ ہموار کر سکیں۔ اس کامیاب واپسی کے لئے انہوں نے چار برس کا طویل اور صبر آزماء انتظار کیا ہے اور اب جب پاکستان میں نگران حکومت قائم ہو چکی ہے تو ان کے برادرخورد نے ان کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کی پاکستان واپسی کا اعلان کر دیا ہے جو میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی کی رضا مندی ظاہر کرتا ہے۔باخبر حلقوں میں یہ چہ مگویاں ہو رہی ہیں کہ میاں نواز شریف جن کی پاکستانی سیاست پر گہری نظر ہے اور وہ ابھی بھی پاکستان کے سیاسی میدان کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور تب تک واپسی کا جہاز نہیں پکڑنا چاہتے جب تک انہیں اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ وہ پاکستان پہنچ کر سیاست میں آزادانہ کردار ادا کر کے حکمرانی حاصل کرسکیں گے۔ میاں صاحب چند ماہ پہلے بھی پاکستان واپسی کے لئے رخت سفر باندھ سکتے تھے جب ان کے بھائی وزیر اعظم اور بھتیجا وزیر اعلیٰ پنجاب تھے لیکن نہ جانے کیوں انہوں نے اس وقت پاکستان واپسی کی پرواز نہیں پکڑی۔ ہمارے پاکستانی سیاست دانوں کی یہ کمزوری رہی ہے کہ وہ حکمرانی کے لئے عوام کی طاقت سے رجوع کرنے اور ان کے ووٹ کو عزت دینے کی بجائے مقتدر حلقوں کی آشیر باد پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اور موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ انہیں حکمرانی کے لئے کوئی کندھا مل جائے یا کوئی ایسا سہارامیسر آجائے
۲
جس کے بعد وہ یقینا اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جائیں۔
آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں جب معلومات کا تیز رفتا بہاؤ ہر وقت عوام کی پہنچ میں ہے انہی لا محدود معلومات کے تناظر میں پاکستان کے عوامی سیاسی حلقوں میں جب ملک کی سیاسی پارٹیوں کے رجحانات کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو ایک بات عمومی طور پر کہی جاتی ہے کہ پاکستان کی سیاست کے فیصلے سات سمندر پار لندن یا دبئی میں بیٹھ کر نہیں بلکہ عوام کے درمیان بیٹھ کر ہونے چاہئیں۔ عمائدین پاکستان اگر پاکستانی عوام کے درمیان بیٹھ کر سیاسی فیصلے کریں تو عوام ان فیصلوں کی توثیق کر سکتے ہیں ورنہ دوسری صورت میں عوام اب اپنے سیاسی رہنماؤں سے بہت آگے نکل گئے ہیں اور اتنے آگے کہ عوام کے قدموں سے اٹھنے والے گردو غبار میں یہ سیاسی رہنماء گم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ آج صورتحال یہ بن چکی ہے کہ سیاست دان جن کا سیاسی اوڑھنا بچھوناہی عوام ہوتے ہیں وہ مہنگائی میں پستے عوام کے سیاست مخالف ردعمل سے گھبرا رہے ہیں اور کسی بھی سیاسی مہم جوئی سے پہلے یہ تسلی کر لینا چاہتے ہیں کہ عوام ان کو ووٹ کے ذریعے عزت دے دیں۔
میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی کے لئے ان کی جماعت نے پنجاب میں ورکرز کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور مختلف شہروں میں تنظیمی سطح پر ورکر کنونشن منعقد کئے جارہے ہیں۔جن میں آئندہ انتخابات کی مہم میں گزشتہ ساڑھے تین سالہ نواز حکومت کے دوران پایہ تکمیل تک پہنچائے گئے عوامی خدمت کے منصوبوں کو بنیاد بنا کر سیاسی بیانیہ بناکر عوام میں جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ماضی کی حکومت کی کارکردگی کو بنیاد بنانے کی ضرورت اس لئے پیش آرہی ہے کہ چونکہ گزشتہ سولہ ماہ کی حکومت جس میں مسلم لیگ نوازکی نمائندگی کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں شہباز شریف اپنے وزرائے خزانہ مفتاح اسماعیل اوراسحاق ڈار کے ساتھ حکمرانی کے منصب پر فائز رہے ہیں لیکن اس سولہ ماہی حکومت میں وہ
۳
اپنی جماعت کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کرنے سے قاصر رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس سولہ ماہی حکومت نے نواز لیگ کی سیاست کا بھر پور نقصان کیا ہے اور عوام کو شدید ناراض کر کے وہ رخصت ہوئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف جن کی بطور صوبائی حکمران کامیابیوں کی شہرت بلاشبہ چہار دانگ عالم تھی وہ بطور وزیر اعظم کوئی متاثر کن کارکردگی دکھانے میں بری طرح ناکام رہے اور اپنی پارٹی کے لئے سیاسی میدان میں مشکلات چھوڑ گئے ہیں۔
یہ سیاسی رہنماء ہی ہوتے ہیں جو قوم کو مشکلات سے نکالتے ہیں اور اس کی درست سمت رہنمائی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ جمہوریت اور سیاست لازم و ملزوم ہیں اور جمہوریت جیسی بھی ہو ہم اس کو ترک نہیں کر سکتے حالانکہ ہماری لولی لنگڑی جمہوریت نے ہمیں کبھی کوئی سکھ نہیں دیا لیکن اس کے باوجود بھی جمہوری نظام حکومت ہی بہتر گردانا جاتا ہے جب تک سیاسی رہنماء میدان سیاست میں موجود رہتے ہیں جمہوریت قائم ودائم رہتی ہے لیکن جب کسی بھی تجربہ کار اور قدرے اصلاح یافتہ سیاسی رہنماء کو سیاسی زندگی سے خارج کر دینے کی کوشش ہوتی ہے تو جمہوری عمل میں اس کو کسی دانشمندی سے تعبیر نہیں کیا جاتا ہے۔ سیاسی رہنماء ہی سیاسی میدان میں سجتے ہیں اور میاں نواز شریف کی وطن واپسی بھی اکیلاسیاسی میلہ سجانے کی ایک اور کوشش ہے۔ پاکستان میں ان کی پارٹی کے لئے لیول پلینگ فیلڈ کسی حد تک تیار ہو چکی ہے اور میاں نواز شریف میثاق مفاہمت پر عمل درآمد کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ سیاسی میدان میں زیرک اور نپی تلی گفتگو کے ماہر نواز شریف نے اس پہلے بھی سیاسی میدان میں کئی میثاقوں پر دستخط کئے ہیں جن میں پہلا میثاق شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ لندن میں ہی طے پایا تھا جس پر دونوں پارٹیوں نے پانچ پانچ سالہ اقتدار کی صورت میں عمل درآمد کیا۔اس کے بعد ان کی پارٹی نے سولہ ماہ پہلے پی ڈی ایم کی جماعتوں کے ساتھ میثاق معیشت بھی کیا جس کے بدلے میں شہباز شریف وزرات عظمیٰ کے
۴
حقدار ٹھہرے۔ اب ایک بار پھر میاں نواز شریف پاکستانی مقتدرہ کے ساتھ میثاق مفاہمت کر کے پاکستان واپس لوٹنے کی تیاریوں میں ہیں دیکھتے ہیں اس میثاق مفاہمت کے نتائج کیانکلتے ہیں؟۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button