چند چبھتے سوالات(غیر سیاسی باتیں…..اطہر قادر حسن)
سب سے پہلا سوال جو زبان زد عام ہے کہ کیا ملک میں عام انتخابات ہوں گے یا نہیں،دوسرا سوال جس کا آج کل بہت زیادہ چرچا ہے کہ کیا میاں نواز شریف وطن واپس لوٹیں گے
ا س وقت ہر خاص و عام محفلوں میں چند ایک اہم سوالات زیر بحث ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ کسی دانشور اور صاحب علم کے پاس بھی ان سوالات کے تسلی بخش جوابات نہیں ہیں سب گو مگو کی کیفیت میں ہیں۔ سب سے پہلا سوال جو زبان زد عام ہے کہ کیا ملک میں عام انتخابات ہوں گے یا نہیں،دوسرا سوال جس کا آج کل بہت زیادہ چرچا ہے کہ کیا میاں نواز شریف وطن واپس لوٹیں گے، کیا تحریک انصاف کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی یا اس بڑی سیاسی جماعت کو قانونی طور پر انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا جائے اورچوتھے نمبرپر خاص و عام کا مشترکہ دکھڑا ہے کہ بجلی کا بل کتنا آیا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے تسلی بخش جوابات کسی کے پاس نہیں ہیں صرف ٹامک ٹویاں ہیں، اندازے اور قیافے لگائے جار ہے ہیں جتنی زبانیں اتنی بولیاں ہیں۔ بحث ومباحثے جاری ہیں لیکن یہ کسی منطقی انجام تک پہنچتے نظر نہیں آتے۔ شائد کسی کوبھی ان سوالات کے جوابات کا علم نہیں ہے اور غیب کا علم تو صرف اسی ذات کے پاس ہے جس کے قبضے میں ہماری جان ہے۔ البتہ میاں شہباز شریف بار بار یہ یقین دلا رہے ہیں کہ ان کے بھائی میاں نواز شریف خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے پاکستان واپس آرہے ہیں اور پاکستان واپسی پر وہ مینار پاکستان کی گراؤنڈ میں جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔ اب چونکہ گلیاں سنجیاں ہو چکی ہیں تو یہ زیادہ مناسب وقت ہے کہ نواز لیگ لاہور میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرے۔
میرا علم اور وجدان جہاں تک کام کرتا ہے اس کا کہنا ہے کہ اپنے انتہائی قریبی رفقائے کار کی خواہشات کے برعکس میاں نواز شریف نہ صرف ملک واپس آرہے ہیں بلکہ وہ سیاست میں بھی بھر پور حصہ لیں گے اور اگر انہوں نے بم کو لات نہ ماری تو وہ شائد چوتھی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بن کر ریکارڈ بھی قائم کر
دیں گے۔ یہ تو آج کی صورتحال ہے لیکن پاکستان میں سیاسی صورتحال گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہے اور پاکستانی سیاست کے رنگ واقعی نرالے ہیں کہ کل کے معتوب آج کی پسند ٹھہر جاتے ہیں۔
بہر حال میاں نواز شریف کی واپسی اٹل ہے اگر کوئی قانونی موشگافی پیدا نہ کر دی گئی۔
دوسرا اہم ترین سوال تحریک انصاف کی مستقبل کی سیاست کے متعلق ہے اور ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کا حصہ کیا ہوگا۔ سردست جو صورت نظر آرہی ہے اس میں یہ حصہ نظر نہیں آتا لیکن پھر وہی بات کہ پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اوربقول مشاہد حسین سید کے یہ عاشقی اور معشوقی والا معاملہ ہے دیکھنا یہ ہے کہ عاشق کامیاب ہوتا ہے یا معشوق اس کو دغا دے جاتا ہے لیکن شاہ صاحب نے یہ واضھ نہیں کیا کہ عاشق کون ہے اور معشوق کون ہے۔ جس طرح تحریک انصاف کے سرکردہ رہنماء پابند سلاسل اور باقی ماندہ قیادت روپوش ہے ان حالات میں مجھے تو یہ نظر آرہا ہے کہ آئندہ کی پانچ سالہ حکمرانی میں تحریک انصاف کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہوگا اگر خطرات مول لے کر مہربانی کی گئی تو وہ صرف اس حد تک ہو گی کہ انتخابات کو اقوام عالم میں قابل قبول بنانے کے لئے اس کا انتخابی نشان بیلٹ پیپر پر ضرور موجود ہو گا لیکن یہ نشان لینے والا شائد کوئی نہ ہو اور جو چند ایک سر پھرے اس نشان کو حاصل کر لیں گے وہ جیت کر اسمبلی میں ضرور پہنچیں گے جس سے یہ تاثر قائم ہو گا کہ تحریک انصاف بھی اسمبلی کی چند ایک نشستوں کے ساتھ میں موجود ہے۔
یہ سوالات اس اہم سوال سے جڑے ہیں کہ کیا ملک میں عام انتخابات ہوں گے کیونکہ جب دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئی تھیں تو الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کرانے سے انکار کر دیا تھا جس کے نتیجہ میں پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں نگران حکمران آئینی مدت سے تجاوز کر چکے ہیں۔ میاں شہباز شریف کی حکومت انتخابات کے معاملے پر گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں پھینک کر نگران حکمرانوں کے حوالے کر
گئی ہے اب نگران وزیر اعظم بھی عام انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات منعقد کرانے کا عندیہ دیا ہے لیکن ہمارے سیاست دان انتخابات کے انعقاد پر شک و شبہے کاشکار ہیں ان کے خدشات کے پس منظر میں نہ جانے کون سے عوامل ہیں جن کی بنیاد پر سیاسی رہنماء انتخابات کے معاملے پر مشکوک ہو گئے ہیں لیکن قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ ملک میں عام انتخابات ہر حال میں منعقد ہوں گے کیونکہ اب انتخابات کے سوا کوئی اور چارہ نہیں رہا ہے اور عوام یہ توقع کر رہے ہیں کہ ایک منتخب حکومت ہی ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کر سکتی ہے۔
ایک اہم ترین سوال جو کہ ہر محفل میں ببانگ دہل کیا جارہا ہے اورشریکان محفل ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ ان کا بجلی کا بل کتنا آیا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو اس سے پہلے اشرافیہ کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا لیکن اب یہ سوال اشرافیہ کی محفلوں میں بھی گونج رہا ہے۔ اس سوال کی گونج اگر کسی کو سنائی نہیں دے رہی تو وہ حکمران ہیں جنہوں نے کان بند کر رکھے ہیں تا کہ عوام کی دہائیاں ان تک نہ پہنچ پائیں۔ بجلی کے ہوشربا بلوں نے ہر خاص و عام کی زندگی میں ہیجان برپا کر رکھا ہے اور ان بڑھتے بلوں سے گلو خاصی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔
یہ وہ چند سوالات ہیں جو آج کل ہر محفل کا نکتہ آغاز بھی ہیں اور نکتہ اختتام بھی ہیں لیکن کوئی بھی ان سوالات کے واضح جوابات دینے قاصر ہے۔ شائد ان لوگوں کے پاس بھی ان سوالوں کے جواب نہیں ہیں جو خود ان سوالات کے موجد ہیں۔ عوام کی یہ پریشان خیالی ہے کہ ان ذہنوں میں یہ سوالات کلبلا رہے ہیں اور وہ ان کے جوابات ڈھونڈنے کے لئے مختلف در کھٹ کھٹارہے ہیں۔ ان مشکل سوالات کے جوابات کے لئے دیوان حافظ سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔کچھ برس پہلے تک پڑھے لکھوں گھروں میں دیوان حافظ موجود ہوتا تھا جس کے شعروں کے مفہوم سے کسی مشکل میں فال نکالی جاتی
تھی۔ آج بھی ان مشکل سوالوں کے جوابات کے لئے دیوان حافظ کے شعروں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔