
رپورٹ وائس آف جرمنی،پاکستان چپٹر
پاکستان کی آبادی میں خطرناک حد تک اضافہ ملک کو تیزی سے ایک ایسے بحران کی طرف لے جا رہا ہے، جس کے دور رس اثرات معیشت، سماج اور قومی سلامتی تک مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ ماہرین گزشتہ کئی دہائیوں سے اس بگڑتی صورتحال پر مسلسل خبردار کرتے آ رہے ہیں، لیکن یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ آبادی جیسے سنگین مسئلے کو پاکستان کی حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اپنے ایجنڈے میں شامل کیوں نہیں کرتیں؟
جنوبی ایشیا میں سب سے بلند شرحِ نمو
پاکستانی وزارتِ صحت کے مطابق ملک میں آبادی کی سالانہ شرحِ نمو 2.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں بلند ترین شرح ہے۔ ہر پاکستانی خاتون اوسطاً تین یا اس سے زیادہ بچوں کو جنم دے رہی ہے، جبکہ مانع حمل طریقوں کا استعمال صرف ایک چوتھائی خواتین تک محدود ہے۔ مزید برآں، 17 فیصد خواتین ایسی بھی ہیں جو خاندانی منصوبہ بندی کی خواہش کے باوجود سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث ان سے فائدہ نہیں اٹھا پاتیں۔
یہ اعداد و شمار نہ صرف پاکستان کی سماجی اور معاشی منصوبہ بندی پر سوالیہ نشان ہیں بلکہ اس حقیقت کی بھی نشان دہی کرتے ہیں کہ حکومتی سطح پر خاندانی منصوبہ بندی کو کبھی بھی سنجیدہ ترجیح نہیں دی گئی۔
نظام کی ناکامی کا حکومتی اعتراف
یہ پہلا موقع ہے کہ سرکاری سطح پر بھی آبادی کے بحران کا کھل کر اعتراف کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے حال ہی میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’موجودہ فرسودہ نظام آبادی کی ضروریات پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔‘‘ ان کے بقول، اس نظام کی نااہلی اب قومی ترقی اور استحکام کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
ریاستی نظام پر اثرات
پبلک پالیسی کے ماہر عامر جہانگیر کہتے ہیں کہ آبادی میں تیز رفتار اضافہ محض ایک اعداد و شمار کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پورے ریاستی ڈھانچے پر بوجھ ڈال رہا ہے۔ ان کے مطابق، ’’یہ صورتحال براہ راست صحت، تعلیم، خوراک، صاف پانی، رہائش، روزگار اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی پر اثر انداز ہو رہی ہے، خاص طور پر خواتین اور بچیوں کے حقوق اور تحفظات کے حوالے سے شدید بحران پیدا ہو رہا ہے۔‘‘
خاندانی منصوبہ بندی کے اہداف بے اثر
ڈاکٹر صوفیہ یونس، ڈائریکٹر جنرل پاپولیشن وِنگ، کے مطابق وزارتِ صحت کے خاندانی منصوبہ بندی کے اہداف کا قومی سطح پر کوئی مؤثر جائزہ موجود نہیں۔ ان کے مطابق، 2025ء تک کے اہداف اب بھی غیر واضح ہیں اور 2030ء تک آبادی میں اضافے کی شرح کو 1.1 فیصد تک لانا بظاہر ایک مشکل ہدف دکھائی دیتا ہے۔
اسی طرح، ڈاکٹر رابعہ اسلم، اسسٹنٹ پروفیسر، قائداعظم یونیورسٹی، کہتی ہیں: ’’یہ مسئلہ اب محض آگاہی کا نہیں رہا بلکہ اصل رکاوٹ سیاسی عزم کی کمی ہے۔ جب تک خواتین کی تعلیم، صحت اور انہیں بااختیار بنانے کو پالیسی کا مرکز نہیں بنایا جاتا، اس مسئلے کا پائیدار حل ممکن نہیں۔‘‘
سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی
سابق چیئرپرسن نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (NCSW)، نیلوفر بختیار، کے مطابق ’’آبادی کا مسئلہ کبھی بھی سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں رہا۔ نہ تو حکومتی پالیسیاں اس پر مبنی ہیں، نہ ہی کسی جماعت نے اسے اپنے منشور میں شامل کیا۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ اس موضوع پر صرف بیان بازی کی جاتی ہے، مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ’’وسائل منتشر ہیں، ادارے غیر مؤثر ہیں اور کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ہر سال لاکھوں خواتین غیر محفوظ اسقاط حمل پر مجبور ہوتی ہیں، لیکن معاشرہ اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
مذہبی اور سماجی رکاوٹیں
ماہر امراض نسواں، ڈاکٹر امِ حبیبہ، کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی کے نظام کی ناکامی کی ایک اہم وجہ مذہبی بیانیے اور معاشرتی رویے بھی ہیں، جو مانع حمل ذرائع کے استعمال کو معیوب تصور کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، ’’خواتین کو نہ صرف سہولیات کی کمی کا سامنا ہے، بلکہ انہیں فیصلہ سازی کے عمل سے بھی باہر رکھا جاتا ہے، جس کے باعث زچگی کے دوران اموات کی شرح بھی بہت بلند ہے۔‘‘
فنڈز کا ضیاع یا عالمی مفادات؟
نیلوفر بختیار نے اس امر پر بھی تشویش ظاہر کی کہ بعض مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں صرف عالمی فنڈز حاصل کرنے کے لیے آبادی کے مسئلے کو نمایاں رکھتی ہیں، مگر عملی میدان میں ان کی کارکردگی صفر کے برابر ہے۔ پاپولیشن کونسل جیسے اداروں کی موجودگی کے باوجود خاطر خواہ نتائج نہ آنا اس دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔
کب جاگے گی قیادت؟
پاکستان کو اگر پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو آبادی میں اضافے جیسے خطرناک مسئلے کو محض بیانات سے نکال کر سیاسی، معاشی اور سماجی پالیسیوں کا حصہ بنانا ہوگا۔ اس کے لیے خواتین کی تعلیم، صحت اور خودمختاری کو مرکزی مقام دینا ناگزیر ہے۔
ملک اس وقت ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں اگر اب بھی سنجیدہ اصلاحات نہ کی گئیں تو آنے والے سالوں میں وسائل کی قلت، غربت، بیروزگاری، اور ماحولیاتی مسائل ایک ناقابلِ قابو بحران میں بدل سکتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ آبادی پر قابو پانے کو سیاست سے بالا تر سمجھا جائے اور قومی بقاء کی پالیسی کے طور پر اپنایا جائے۔



