
پھر تیری قیادت کو ترستا ہے زمانہ……حکیم راحت نسیم سوھدروی
قائد اعظم محمد علی جناح جب لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کرتے تھے تو اسی وقت سے انہیں قومی مسائل اور قومی سیاست سے دلچسبی پیدا ھو گئی تھی اور وہ اکثر فارغ وقت میں پارلیمنٹ ھاوس جاکر کاروائ سنتے
قائد اعظم محمد علی جناح اسلامیان برصغیر کے ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے وہ عظیم راہنما ہیں جن پر عالم اسلام کو ہمیشہ ناز رہے گا- ان کا کارنامہ دنیا کا جغرافیہ بدل کر تاریخ کےدھارا کا رخ بدلنا ہی نہیں بلکہ آئینی و جمہوری طریق سے اس وقت کی سب سے بڑی مملکت اسلامی پاکستان قائم کرکے ملت اسلامیہ کی نشاستہ ثانیہ کا سامان کرنا ھے جس سے مسلمان دنیا میں پھر سے سر بلند ہوکرپورے عالم اسلام کو نی زندگی بخش سکتے ہیں – قائد اعظم نے تعلیمی، معاشی،اور سیاسی طور پر پسماندہ نیز منتشر اور انتشار کا شکار قوم کو متحد ومنظم کرکے جس طرح دو بالادست قوتوں انگریز اور ہندو کو شکست دی اور بغیر اسلحہ و فوج کے جنگ جیتی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ھے- اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ھے کہ اگر قیادت بیدار مغز،دیانت دار،اور مخلص ہو اور منزل و مقاصد صاف ہو اور اس کی حقانیت پر یقین کامل ہو تو تاہید خداوندی از خود شامل ہو جاتی ہے – جس سے کامیابی مقدر بن جاتی ہے-
قائد اعظم محمد علی جناح جب لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کرتے تھے تو اسی وقت سے انہیں قومی مسائل اور قومی سیاست سے دلچسبی پیدا ھو گئی تھی اور وہ اکثر فارغ وقت میں پارلیمنٹ ھاوس جاکر کاروائی سنتے – جب تعلیم مکمل کرکے واپس ھندوستان اے تو وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کردیا- اور اس وقت موجود واحد سیاسی جماعت کانگریس سے وابستہ ھو گئے- اس طرح ان کی سیاسی زندگی کا آغاز ایک وسیع المشرب مسلماں کی حثیت سے ہوا- وہ اس وقت گوکھلے اور دادا جی نورو بھائ سے بھت متاثر تھے- کانگریس کے ان دنوں جانے والے اجلاسوں میں وقف الاسلام اور تعلیمی مسائل پر انکے خطبات نے ان کی سیاسی فراست اور خطبات کی داد بٹھا دی- کچھ ھی عرصہ بعد ال انڈیا مسلم لیگ سیاسی میدان میں فعال ھوگئ تو قائداعظم نے کوشش کی کہ ہندو اور مسلمان ملکر ازادی وطں کی جدوجہد کریں اور دونوں اقوام میں بقاے باہمی کی بنیاد پر مفاہمت کے لئے ان کی کاوشوں سے میثاق لکھنو معرض وجود میں ایا- قائد اعظم کے چودہ نکات کو بہت پذیرائی ملی-ان کاوشوں کی وجہ سے قائد اعظم کو ہندومسلم اتحاد کا سفیرکہا جانے لگا-لارڈ ولنگنڈن کے خلاف مظاہرہ کی قیادت اور پھر اس مظاہرہ کی یاد میں بمبئی میں قائد اعظم سے منسوب ہال اج بھی اس دور کی یاد دلاتا ھے- مفاہمت کی فضا میں دونوں اقوام ازادی کے لئے آگے بڑھ رہی تھیں کہ تحریک خلافت شروع ھوگئ -قائد اس سے لاتعلق تھے گاندھی نے اس پر قبضہ کرنے کے لئے ٹحریک عدم تعاون شروع کردی اور پھر عدم تشدد کے نام پر تحریک روک دی جس سے مسلمانوں کو ہہت نقصان ہوا اور اس کے بعد ہندو مسلم فسادات شروع ھوگئے-شدھی و سنگھٹن کی تحریکیں شروع ھو ئیں اور ہندو مسلمانوں میں دوری ھوگئ-اس کے بعد نہرو رپورٹ اور سائمن کمیشن نے قائد اعظم کو مکمل مایوس کردیا اور وہ واپس لندن چلے گئے-اسی دور میں علامہ اقبال نے ال انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ آلہ اباد میں ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل جداگانہ مملکت کو قراردیااور قائد اعظم کو بھی اپنی راے سے متفق کرنے کے لئے کام شروع کردیا -علامہ نے قائد اعظم کو خط لکھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے اپ کی قیادت ضروری ھے اور آپ ھی وہ واحد شخصیت ہیں جو مسلمانوں کو مشکلات سے نکال کر اوج ثریا تک پہنچا سکتے ہیں -اس اواز نے قوم میں یقین کی لہر دوڑا دی اور قائد اعظم نے واپس آکر مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی- 1937 میں لیگ کا اجلاس عام ہوا اور لیگ کو عوامی سیاسی تنظیم بنانے کا فیصلہ ھوا- اس طرح یہ اجلاس لیگ کی تاریخ میں سنگ میل کی حثیت رکھتا ھے- مولانا ظفر علی خان نے اپنی تنظیم مجلس اتحاد ملت اسی اجلاس میں لیگ میں ضم کرکے ابتدائ کارکن فراہم کئے-
1935 ایکٹ کے تحت صوبائ انتحابات ہوے تو کانگریس نے چھ صوبوں میں حکومتیں بنا لیں تو اس کے نتیجہ میں کانگریس کی مہاسبھائ ذہنیت سامنے اگئ -کیونکہ کانگریس نے ہندو ہندی اور ہندوستان کے منصوبہ پر کام شروع کردیا -ایسی تعلیمی پالیسی دی جسے تعلیمی وردھیا مندر اسکیم کا نام دیا گیا اس کے تحت مسلمانوں کا قومی تشخص ختم کرنا سنسکرت کو ھندوستان کی زبان بنانا اور بندے ماترم کو سکولوں کا ترانہ رائج کرنا تھا- جس مسلمانوں میں تشویش کی پھر دوڑ گئ- دوسری طرف مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی بجاے نہرو نے انہیں کانگریس میں شامل کرنے کی رابطہ عوام مہم شروع کردی اور طاقت کے نشہ میں اعلان کیا کہ ہندوستان میں دو ہی طاقتیں ہیں ایک انگریز اور دوسری کانگریس- جس پر قائداعظم نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ تسری طاقت مسلمان بھی ہیں – قائد کی کاوشوں اور گاندھی کے فلسفہ رام راج نے مسلمانوں کو لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد کردیا – اسی اثنا میں پیرپور کمیٹی کی رپورٹ پر کانگریسی صوبائ حکومتیں ختم کردی گئیں جس پر قائد اعظم کی اپیل پر مسلمانوں نے یوم نجات منایا -مسلمان ان حالات میں الگ وطن کو ہی اپنے مسائل کا حل سمجھنے لگے- 23 مارچ 1940 کو لیگ کا سالانہ اجلاس اقبال پارک (مینارپاکستان) پر ہوا جس میں ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کا حل تقسیم ہند کو قرار دیا گیا-اس اجلاس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ مسلمانوں برصغیر کے سامنے واضح نصب العین تھا اور تمام مکاتیب فکر کے مسلمان قائد کی قیادت میں یک جا ہوکر جانب منزل چل پڑے -1946 کے انتحابات لیگ نے قیام پاکستان کے بیانیہ پر لڑے تو قوم نے قائد کی قیادت اور پاکستان کے مطالبہ کی تاہید میں ووٹ دئیے ہندو کو یقین ہوگیا کہ مسلمان قوم اب مطالبہ پاکستان کے لئے قائد اعظم کی قیادت میں متحد ہوچکی ھے تو قائد کو وزارت اعظمی کا لالچ دیا گیا مصالحت کی اپیلیں کی گئیں مگر قائد کو قدرت نے عزم وہمت اور فراست سے مالا مال کیا تھا اور ان کے کسی دام میں نہ اے وہ جانتے تھے کہ ان کا مقصد لیگ اور مسلمان وں کو منشتر کرنا اور مطالبہ پاکستان سے بٹانا ھے-
قوم نے 23 مارچ 1940 کو جس سفر کا آغاز کیا تھا ٹھیک سات سال بعد 14 اگست 1947 مطابق 27 رمضان المبارک یوم جمعہ الوداع اور نزول قرآن کی مبارک ساعتوں شب نزول قران میں اس وقت کی سب بڑی مملکت اسلامی پاکستان حاصل کرلی-یہ وطن سورہ رحمن کی تفسیر ھے -قائد اعظم نے ناممکن کو ممکن بنا کر دکھا دیا-قائد اعظم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ لیگ کے پلیٹ فارم پر سب مکاتیب فکر متحد تھے کوئ وھابی تھا نہ کوئ سنی کوئ شعیہ تھا نہ دیوبندی کوئ علاقایت تھی نہ کوئ پنجابی بنگالی تھا بلکہ سب مسلمان اور ملت واحد کا حصہ تھے-
ھندوستان کے آخری وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن جن کے قائد اعظم کے بارے کھبی تاثرات خوش گوار نہیں تھے اور تقسیم ہند کے وقت ناانصافیاں کرکے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کے نتیجہ میں مسئلہ کشمیر اج تک معلق ھے اور دونوں ممالک تین جنگیں لڑ چکے ھیں اور اج بھی امن کی راہ میں سب سے بڑا تنازعہ ھے – اپنی موت سے قبل 1975 میں بی بی سی کو ایک انٹریو میں کہا کہ عمر کے اس حصہ میں ہوں کہ نہ معلوم کب بلاویا اجاے اس لئے کوئ بات غلط نہیں کروں گا -میں اپنی زندگی میں سب سے زیادہ محمد علی جناح سے متاثر ہوا ہوں- وہ پہاڑ کی طرح اپنے مقام پر سخت اور مستحکم تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ بڑے ٹھنڈ دل ودماغ کی ادمی تھے -جناح میں ضد تو تھی مگر منافق نہ تھے- سید ھا چلنے والے اور سچی بات منہ پر کہنے والے اور ظاھر و باطن میں یکساں—- نجیف جسم و جان کے ساتھ ایک بہادر شخص اور پر جیت! اسلامیان برصغیر کو صرف ایک یہ شخص بام عروج پر لے گیا-:
افسوس کہ قیام پاکستان کے بعد صرف ایک سال میں قائد ہم سے رخصت ہو گئے اور ان کے بعد ہمیں ان جیسا قائد نہ مل سکا اور پاکستان بحرانوں کا شکار ھوگیا-علامہ شبیر احمد عثمانی نے خوب کہا کہ اورنگ زیب کے بعد ھندوستان نے اتنا بڑا مسلمان پیدا نہیں کیا جس کے عزم وہمت نے دس کڑور افراد کی مایوسیوں کو کامیابیوں میں بدل دیا – پاکستان کے بعد متعدد مسلمان ملک آزاد ھوے اور غلامی کے ساے ختم ھوے