بین الاقوامیاہم خبریں

ایسٹ سسیکس: مسجد کو آگ لگانے کے واقعے کی تحقیقات جاری، پولیس نے مشتبہ افراد کی تصاویر جاری کر دیں

ولیس اور فائر بریگیڈ کو ہفتہ، رات 9:50 بجے (BST) اطلاع ملی کہ Phyllis Avenue، Peacehaven میں واقع ایک مسجد میں آگ لگی ہے۔ اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا،

پیس ہیون، ایسٹ سسیکس – نمائندہ خصوصی
ایسٹ سسیکس کے پُرامن قصبے پیس ہیون میں واقع ایک مسجد کو ہفتہ کی شب آتشزدگی کا نشانہ بنایا گیا، جسے پولیس نے نفرت انگیز حملہ قرار دیتے ہوئے مشتبہ افراد کی تصاویر جاری کر دی ہیں۔ اس واقعے نے برطانیہ بھر میں مذہبی آزادی، اقلیتوں کے تحفظ اور بین المذاہب ہم آہنگی پر شدید سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔


مسجد پر آتشزدگی: واقعے کی تفصیلات

پولیس اور فائر بریگیڈ کو ہفتہ، رات 9:50 بجے (BST) اطلاع ملی کہ Phyllis Avenue، Peacehaven میں واقع ایک مسجد میں آگ لگی ہے۔ اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم:

  • مسجد کے سامنے کے دروازے کو شدید نقصان پہنچا؛

  • ایک کھڑی ہوئی گاڑی مکمل طور پر جل کر تباہ ہو گئی؛

  • جائے وقوعہ پر آتشزدگی کے شواہد واضح تھے۔

پولیس کے مطابق، یہ واقعہ جان بوجھ کر آگ لگانے کا نتیجہ ہے اور اسے نفرت پر مبنی جرم کے طور پر تفتیش کی جا رہی ہے۔


پولیس نے مشتبہ افراد کی تصاویر جاری کر دیں

سسیکس پولیس نے اتوار کو دو مشتبہ افراد کی سی سی ٹی وی تصاویر جاری کی ہیں۔ تصاویر کے مطابق:

  • ایک شخص نے سیاہ جیکٹ پہنی ہوئی ہے، جس پر سینے پر سفید “PRE LONDON” لوگو نمایاں ہے؛

  • دوسرا شخص چمکدار سرخ دستانے پہنے ہوئے ہے؛

  • دونوں نے چہرے بالاکلاوا یا ماسک سے ڈھانپ رکھے ہیں اور سیاہ لباس میں ملبوس ہیں۔

پولیس نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر کسی کو ان افراد کے بارے میں کوئی معلومات ہوں تو فوری طور پر سسیکس پولیس سے رابطہ کریں۔


پولیس کی سخت مذمت اور عوامی تحفظ کی یقین دہانی

تحقیقات کی سربراہی کرنے والے ڈیٹیکٹو انسپکٹر گیون پیچ نے واقعے کو ’’خوفناک اور لاپرواہ حملہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا:

"ہم اسے جان بوجھ کر جان کو خطرے میں ڈالنے کی نیت سے کی گئی آتشزدگی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جو لوگوں کو غیر محفوظ محسوس کرا رہا ہے، اور ہم تمام تر وسائل استعمال کر کے ذمہ داروں کو تلاش کریں گے۔”

پولیس نے پیس ہیون اور دیگر عبادت گاہوں کے اطراف سیکیورٹی سخت کر دی ہے اور عوام کو یقین دلایا ہے کہ ایسی تمام کارروائیوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے گی۔


مسجد کے رضاکاروں کی بیان کردہ چشم دید تفصیلات

مسجد کے ایک رضاکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:

"دو افراد نے مسجد کے داخلی دروازے اور باہر کھڑی گاڑی پر مائع چھڑکا اور اسے آگ لگا دی۔ وہ دروازے کو توڑ کر اندر داخل ہونا چاہتے تھے، لیکن دروازہ بند ہونے کی وجہ سے ناکام رہے۔ مسجد میں موجود دو افراد بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔”

انہوں نے مزید کہا:

"یہ قتل ہو سکتا تھا۔”


کمیونٹی کا ردعمل: محبت نفرت پر غالب آئے گی

مسجد کے ایک ترجمان نے واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

"یہ نفرت انگیز عمل ہماری پرامن کمیونٹی کی نمائندگی نہیں کرتا۔ پیس ہیون ہمیشہ احترام، رواداری اور ہمدردی کا گہوارہ رہا ہے۔”

انہوں نے ہنگامی خدمات، مقامی لوگوں اور سیاسی رہنماؤں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:

"آپ کی حمایت ہمیں مضبوط کرتی ہے اور یاد دلاتی ہے کہ محبت ہمیشہ نفرت پر غالب آتی ہے۔”


قومی ردعمل: حکومت، سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی مذمت

  • ہوم سیکریٹری شبانہ محمود نے ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر حملے کو ’’گہری تشویش‘‘ قرار دیتے ہوئے لکھا:

    "برطانیہ کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ وہ مختلف برادریوں سے ایک قوم بناتا ہے۔ مسلمانوں پر حملہ تمام برطانویوں پر حملہ ہے۔”

  • لیبر ایم پی کرس وارڈ نے حملے کو "ناگوار” قرار دیتے ہوئے کہا:

    "اس نفرت اور تشدد کی ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔ ہم اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔”

  • لیوس ڈسٹرکٹ کونسل کی رہنما زو نکلسن نے متاثرہ مسلمانوں کو "غیر متزلزل حمایت اور یکجہتی” کا یقین دلایا۔

  • برائٹن اینڈ ہوو مسلم فورم کے صدر طارق جنگ نے کہا:

    "خواہ عبادت گزار یہودی ہوں یا مسلمان، انہیں اپنی عبادت گاہ میں محفوظ رہنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونا ہو گا۔”


بین المذاہب اتحاد کی ضرورت: مانچسٹر واقعے کے تناظر میں تشویش میں اضافہ

واقعے سے کچھ ہی روز قبل مانچسٹر میں ایک عبادت گاہ کے باہر فائرنگ کے واقعے میں دو یہودی افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے میں مشتبہ شخص جہاد الشامی کو بھی موقع پر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

ان دونوں واقعات نے ملک بھر میں عبادت گاہوں کی سیکیورٹی پر نئی توجہ مرکوز کر دی ہے، اور بین المذاہب امن و آشتی کی فضا کو مزید مضبوط بنانے کے مطالبات میں اضافہ ہو گیا ہے۔


نتیجہ: نفرت کے خلاف اتحاد وقت کی ضرورت ہے

پیس ہیون کا واقعہ ایک خطرناک رجحان کی علامت بن رہا ہے، جہاں نسل، مذہب یا شناخت کی بنیاد پر نفرت انگیز حملے ہو رہے ہیں۔ تاہم، متاثرہ کمیونٹی اور وسیع تر معاشرے کی جانب سے اتحاد، ہمدردی اور یکجہتی کے جو پیغامات سامنے آئے ہیں، وہ اس بات کا واضح پیغام ہیں کہ:

"برطانیہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں نفرت کے خلاف ہر رنگ، نسل اور مذہب کے لوگ متحد کھڑے ہوں گے۔”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button