
رپورٹ وائس آف جرمنی:
ڈرون ٹیکنالوجی، جو کبھی صرف ریاستی افواج اور خفیہ اداروں کے لیے مخصوص سمجھی جاتی تھی، اب پاکستان کے قبائلی اور سرحدی علاقوں میں ایک نئی شکل میں ابھری ہے۔ اب یہ ہتھیار صرف ریاست کا نہیں رہا بلکہ اس کا استعمال شدت پسند تنظیمیں بھی کرنے لگی ہیں — اور یہ رجحان ایک بڑی اور خطرناک تبدیلی کی علامت ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں شدت پسند گروہوں، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس کے دھڑوں کی جانب سے ڈرون کے استعمال میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پہلے صرف تجرباتی سطح پر محدود ڈرون حملے کیے جا رہے تھے، لیکن اب یہ حملے زیادہ مربوط، منصوبہ بند اور تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں۔
عسکریت پسندوں کی حکمت عملی میں ٹیکنالوجی کا انضمام
یہ تبدیلی محض تکنیکی نہیں بلکہ سیاسی اور نفسیاتی اثرات بھی رکھتی ہے۔ یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ عسکریت پسند ریاستی طاقت کی علامت سمجھی جانے والی جدید ٹیکنالوجی کو نہ صرف سمجھ چکے ہیں بلکہ اسے مؤثر انداز میں استعمال بھی کرنے لگے ہیں۔ اس رجحان نے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے لیے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔
ڈرونز کے ذریعے شدت پسند گروہ:
خود ساختہ بارودی مواد (IEDs) گرا رہے ہیں،
سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں کی نگرانی کر رہے ہیں،
لائیو ویڈیو فیڈز کے ذریعے اہداف کی نشاندہی کر رہے ہیں،
اپنی کمانڈر ٹیمز کو اہداف کی معلومات فراہم کر رہے ہیں،
حتیٰ کہ لاجسٹک مقاصد جیسے سم کارڈز، بیٹریز اور میڈیکل سپلائیز بھی منتقل کر رہے ہیں۔
قبائلی علاقوں کی فضاؤں میں خوف کی لہر
ان حملوں کے ساتھ مقامی آبادی بھی شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو رہی ہے۔ دیہاتیوں کے مطابق اب وہ یہ تعین کرنے کے قابل نہیں کہ فضاؤں میں پرواز کرنے والا ڈرون ریاستی ہے یا عسکریت پسندوں کا۔ اس ابہام نے مقامی اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے۔ کاشتکار دیر سے کھیتوں میں جاتے ہیں، بازار جلد بند ہو جاتے ہیں اور دیہات کے درمیان سفر میں خوف محسوس کیا جاتا ہے۔
شدت پسندوں کا اعتماد اور دعووں میں اضافہ
ٹی ٹی پی نے ایک عرصے تک ڈرون حملوں کی ذمہ داری لینے سے گریز کیا لیکن 2025 میں اس کے ذیلی گروہ ’اتحاد‘ نے کھلے عام ڈرون حملوں کی ذمہ داری قبول کرنا شروع کی۔ اس اعتراف پر تنظیم کے اندر بھی بحث ہوئی، لیکن بعد میں ٹی ٹی پی کے مرکزی دھارے نے بھی ان حملوں کو قبول کرنا شروع کر دیا۔ سویڈن کے محقق عبدالسعید کے مطابق 2024 سے ہی ان حملوں کی ویڈیوز غیررسمی ٹی ٹی پی چینلز پر خاموشی سے گردش کرنے لگی تھیں۔
سیکیورٹی فورسز کا ردعمل اور نئی حکمت عملی
ریاست نے بھی اس ابھرتے ہوئے خطرے کے خلاف جوابی حکمت عملی اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ جولائی کے آخر میں، خیبرپختونخوا پولیس نے بنوں میں ایک آپریشن کے دوران پہلی بار اینٹی ڈرون بندوق استعمال کی، جس سے عسکریت پسندوں کے ڈرون کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالی گئی اور دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا۔
پولیس حکام کے مطابق اس نئی ٹیکنالوجی کو جنوبی اضلاع میں وسیع پیمانے پر متعارف کروایا جائے گا تاکہ بروقت، درست اور موثر ردعمل ممکن ہو سکے۔
تشویشناک رجحان: بلوچستان میں بھی ڈرون کا استعمال
حال ہی میں کچھ شواہد بلوچستان میں بھی سامنے آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علیحدگی پسند باغی گروہوں نے بھی ڈرون ٹیکنالوجی کو اپنانا شروع کر دیا ہے۔ چند حملوں اور ویڈیو کلپس اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی اب صرف مذہبی شدت پسندوں تک محدود نہیں رہی۔
بڑھتا ہوا خطرہ، بگڑتا ہوا توازن
ڈرونز کا بڑھتا استعمال نہ صرف جنگی توازن کو متاثر کر رہا ہے بلکہ اس نے آپریشنل پیچیدگیوں، نفسیاتی عدم تحفظ، اور ریاست و عوام کے درمیان بڑھتے فاصلوں کو بھی جنم دیا ہے۔ یہ صورتحال حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ اگر اس رجحان پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو یہ نہ صرف داخلی سلامتی بلکہ ریاستی رٹ اور نازک علاقوں میں استحکام کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
نتیجہ
پاکستان میں عسکریت پسندوں کی جانب سے ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال ایک نئی جنگی حکمت عملی کی شروعات ہے۔ اس کے تکنیکی، سماجی، اور سیاسی اثرات دور رس ہیں۔ اگرچہ ریاست نے جوابی اقدامات شروع کر دیے ہیں، مگر اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک جامع، مربوط، اور ٹیکنالوجی پر مبنی حکمت عملی کی فوری ضرورت ہے تاکہ دشمن کے ہاتھوں یہ جدید ہتھیار کمزوری نہ بن جائے۔



