بین الاقوامیاہم خبریں

اسرائیل نے گلوبل صمود فلوٹیلا کی آخری کشتی کو بھی روکا، 450 سماجی کارکن گرفتار، دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے

جن میں عالمی سطح پر معروف ماحولیات کارکن گریٹا تھنبرگ، جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا کے پوتے منڈلا منڈیلا، اور متعدد یورپی پارلیمان کے اراکین بھی شامل ہیں۔

یروشلم/غزہ/نیویارک/بارسلونا — اسرائیلی بحریہ نے بالآخر غزہ کے لیے امداد لے جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کی آخری کشتی "میرینیٹ” کو بھی روک لیا ہے، جس کے ساتھ ہی اس علامتی امن مشن کی تمام کشتیوں کو راستے میں ہی روک کر سماجی کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
یہ کشتی قحط زدہ غزہ کی پٹی تک امدادی سامان پہنچانے کی ایک بین الاقوامی انسانی کوشش کا حصہ تھی، جس کا مقصد اسرائیلی بحری ناکہ بندی کو پرامن طور پر چیلنج کرنا تھا۔


450 سے زائد کارکن گرفتار، معروف شخصیات بھی شامل

اسرائیلی فورسز نے جمعہ کی صبح غزہ کے قریب آخری کشتی کو روک کر فلوٹیلا کی تمام 50 کشتیوں کو اپنی حراست میں لے لیا۔
ان کشتیوں پر سوار تقریباً 450 سماجی کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا، جن میں عالمی سطح پر معروف ماحولیات کارکن گریٹا تھنبرگ، جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا کے پوتے منڈلا منڈیلا، اور متعدد یورپی پارلیمان کے اراکین بھی شامل ہیں۔

اسرائیلی حکام نے اعلان کیا ہے کہ ان تمام افراد کو قانونی کارروائی کے بعد ملک بدر کر دیا جائے گا۔


آخری کشتی ’’میرینیٹ‘‘ کو بھی راستے میں روک لیا گیا

فلوٹیلا کی آخری کشتی، میرینیٹ، فلسطینی سرزمین کی طرف روانہ ہو رہی تھی کہ اسرائیلی نیوی نے اسے راستے میں ہی روک کر اپنے قبضے میں لے لیا۔
یہ کشتی گزشتہ کارروائی میں بچ گئی تھی اور جمعہ کو علی الصبح غزہ کے قریب پہنچی، تاہم اس کی لائیو اسٹریم میں وہ لمحہ بھی دیکھا گیا جب اسرائیلی فوجی اس پر سوار ہوئے۔

اگرچہ کشتی پر امدادی سامان کی مقدار علامتی تھی، تاہم یہ مشن اسرائیلی ناکہ بندی کے خلاف سب سے بڑی عالمی علامتی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔


بین گویر کا کارکنوں کا مذاق، "دہشت گردی کی حمایت” کا الزام

اسرائیلی حکومت میں شامل دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر نے زیر حراست سماجی کارکنوں کا سامنا کیا اور ایک وائرل ویڈیو میں ان پر "دہشت گردی کی حمایت” کا الزام عائد کیا۔
ویڈیو میں بین گویر کو کھڑے ہو کر کارکنوں پر الزامات عائد کرتے اور کارکنوں کو فرش پر بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس دوران ایک شخص کو "آزاد فلسطین” کا نعرہ لگاتے بھی سنا گیا، تاہم اس کی شناخت سامنے نہیں آ سکی۔


فلوٹیلا مشن: انسانیت، امن اور احتجاج کی علامت

گلوبل صمود فلوٹیلا ایک بین الاقوامی شہری اقدام ہے جس کا مقصد غزہ کی ناکہ بندی کو پرامن طور پر توڑنا اور محصور فلسطینی عوام تک امداد پہنچانا تھا۔
مشن کے بانیوں کے مطابق، فلوٹیلا سیاسی ایجنڈے کے بغیر ایک انسانی مشن تھا جس میں شریک کارکنان نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔


دنیا بھر میں غصہ، مظاہرے اور ہڑتالیں

اسرائیل کی جانب سے فلوٹیلا کو زبردستی روکنے اور کارکنوں کو گرفتار کرنے کے خلاف عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔

یورپ:

  • میڈرڈ اور بارسلونا میں دسیوں ہزار مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔

  • روم، پیرس، جنیوا اور دیگر یورپی شہروں میں مظاہرے ہوئے جن میں اسرائیل کی غزہ پر کارروائی اور ناکہ بندی کی شدید مذمت کی گئی۔

  • اٹلی کی سب سے بڑی لیبر یونین نے جمعے کو ایک روزہ عام ہڑتال کی کال دے دی، جس میں لاکھوں افراد کی شرکت متوقع ہے۔

لاطینی امریکہ اور ایشیا:

  • ارجنٹینا، چلی، برازیل، انڈونیشیا، ملائیشیا اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں شہریوں نے مظاہرے کیے۔

  • عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اسرائیل کی کارروائیوں پر سوال اٹھا رہی ہیں۔


اسرائیل کی مؤقف: "سیکیورٹی خدشات اور حماس سے تعلق”

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ فلوٹیلا کی سرگرمیوں کا مقصد سیکیورٹی خطرات پیدا کرنا اور حماس کی حمایت کرنا ہے۔
وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ کوئی بھی کشتی جو غزہ کے قریب آئے گی، اسے روکنا اسرائیل کا قانونی حق ہے کیونکہ ’’غزہ کے ساحلی علاقے پر حماس کا قبضہ ہے جو اسرائیل کے خلاف سرگرم ہے۔‘‘


حقوق انسانی تنظیموں کا ردعمل: اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے

اقوام متحدہ سمیت کئی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے فلوٹیلا کو روکنے کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ریڈ کراس سمیت کئی اداروں کا کہنا ہے کہ:

"فلوٹیلا پر زبردستی حملہ، کارکنوں کی گرفتاری اور غزہ میں امداد کی راہ میں رکاوٹ بین الاقوامی انسانی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔”


نتیجہ: غزہ کی ناکہ بندی پر عالمی دباؤ میں اضافہ

گلوبل صمود فلوٹیلا کی ناکامی اور اسرائیلی اقدامات کے بعد غزہ پر اسرائیلی ناکہ بندی کے خلاف عالمی سطح پر عوامی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ صورتحال اسرائیل، حماس، اور عالمی قوتوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کو مزید پیچیدہ کر رہی ہے۔

اب یہ سوال شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ:

  • کیا انسانی امداد کو بھی سیاسی ایجنڈے کی بھینٹ چڑھایا جائے گا؟

  • کیا اقوام متحدہ اس طرح کی کارروائیوں پر خاموش تماشائی بنی رہے گی؟

  • اور کیا دنیا واقعی غزہ کے عوام کے ساتھ یکجہتی میں سنجیدہ ہے؟


(اختتام)

یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانی حقوق، آزادیِ اظہار اور امداد رسانی جیسے بنیادی اصول عالمی سیاست کے پیچیدہ جال میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
جب تک انصاف، انسانیت اور قانون کی بالادستی کو مقدم نہ سمجھا جائے، ایسے واقعات انسانیت کے ضمیر پر سوالیہ نشان بنے رہیں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button