احسان احمدکالمز

پاکستانی یونیورسٹیاں جنسی استحصال اوردرندگی کی بد ترین آمجگاہ…..احسان احمد

پوری ٹھرک جھاڑی جاتی ہے اور لڑکوں سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتے…. اور پھر روتے ہیں کہ میل طلباء عزت نہیں کرتے

ہمارے تعلیمی اداروں میں بیٹھے پروفیسر صاحبان انتہا کے ٹھرکی ہیں. نوجوان لڑکیاں بھی جو یونیورسٹی کے میدان سے گزری ہیں اس بات کو بخوبی جانتی ہوں گی… ریٹ لسٹ کی طرح پروفیسر صاحبان کی بھی فہرست ہوتی ہے… نمبرز کی فہرست…. فلاں جگہ ہاتھ لگوانے کے اتنے اور فلاں جگہ ہاتھ لگوانے کے اتنے نمبر…. اور فلاں کام کے اتنے نمبر…. صبح لگنے والی لسٹ شام کو یا اگلے دن بدل دی جاتی ہے اور ڈی یا سی گریڈ حاصل کرنے والی لڑکی اس فہرست میں اے گریڈ پر ملتی ہے…. پنجاب یونیورسٹی کے بہت سارے سکینڈل دیکھ چکے ہیں آپ سب… کچھ یونیورسٹی میں ایمبولینس میں بیماری کا کہہ کر اس میں خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کو بٹھا کر رات کو پروفیسر صاحبان یا پھر شہر کے کچھ سیاستدانوں کے بستر پر پیش کیا جاتا ہے……. لڑکیوں سے مسکرا مسکرا کر بات کی جاتی ہے… پوری ٹھرک جھاڑی جاتی ہے اور لڑکوں سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتے…. اور پھر روتے ہیں کہ میل طلباء عزت نہیں کرتے… جو سب کچھ دیکھ رہا ہو وہ ان کی عزت کیسے کرے؟۔۔۔ عزت تب ملتی ہے جب برابری رکھی جائے اور میرٹ ہر فیصلہ کیا جائے… ایسے پروفیسر صاحبان بھی ہیں جو کچھ لڑکوں سے اس بات کا بدلہ لیتے ہیں کہ وہ لڑکا جس لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے وہ لڑکی پروفیسر صاحب کو پسند ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ پروفیسر صاحب اس لڑکی پر ٹھرکی ہوتے ہیں…. اور جو خواتین اچھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والی، نسلی اور خاندانی ہیں وہ ان پروفیسر کے ہاتھ نہیں آتی… اور یہ پروفیسر بھرپور بلیک میل کرتے ہیں کبھی فیل کرتے ہیں تو کبھی اس کا تھیسز روک دیتے ہیں کبھی رپورٹ بنا دیتے ہیں تو کبھی کچھ اور دو سالہ ڈگری پانچ سالہ تک پہنچ جاتی ہیں…
بہت سی خواتین کو ان پروفیسر صاحبان کی ان حرکتوں کی وجہ سے یونیورسٹی اور اپنی تعلیم چھوڑتے دیکھا ہے. کیونکہ جو پاک دامن اور خاندانی خواتین ہیں وہ تعلیم کیلئے اپنی عزت اور باپ کی دستار کا جنازہ کبھی نہیں نکالتی.. میں نے پروفیسر صاحبان کے منہ سے وہ وہ جملے سنے ہیں جو میں یہاں بیان نہیں کر سکتا… چند ایک کو حدود کے دائرے میں رہتے ہوئے بیان کرنے کی کوشش کروں گا..
“یہ میری لیب ہے کوئی کوٹھا یا چکلا نہیں کہ جب مرضی آ جاؤ اور آ کر بستر پر لیٹ جاؤ”””””
“مجھے کیا پتا تم دیر سے کیوں آ رہی ہو.. کوئی مجبوری تھی یا اپنے یار کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی تھی””””””
“تین شادیاں کر چکا ہوں اور تمام بیگمات کو خوش اور مطمئن بھی رکھا ہوا ہے۔۔۔ آج کل کے نوجوان تو بس ایک باری لگاتے ہیں تو سر میں درد ہو جاتا ہے ان کے””””
یہ یونیورسٹیوں کے پروفیسر کسی سیاستدان سے کم بدمعاش نہیں ہیں… کیونکہ یہ سب بادشاہ سلامت ہیں… سب کچھ ان کے اختیار میں ہے… پیپر بناتے بھی خود ہیں، چیک بھی خود کرتے ہیں اور نتائج بھی خود بناتے ہیں… یہاں نہ تو کوئی فرضی رول نمبر کا چکر ہے… سامنے نام، ڈگری، سمسٹر اور ڈیپارٹمنٹ سب کچھ مینشن ہوتا ہے… مجھے اس یونیورسٹی سسٹم سے ہی اختلاف ہے جناب جہاں پروفیسر اپنی مرضی کا مالک ہے… سامنے کھڑا کر کے کہتا ہے… “تمہارا سوال سارا درست ہے.. یہ لو… کراس لگا کر کہتا ہے کہ جاؤ کر لو جو بھی کرنا ہے…” مطلب وہ اعلانیہ کہتا ہے کہ میری مرضی… مجھ سے پوچھنے والا کون ہے؟اور واقعی پوچھنے والا کوئی نہیں… جیسے پولیس والے پولیس والوں کے پیٹی بھائی ہیں.. جج وکیل کے پیٹی بھائی ہیں ٹھیک ایسے یہ پروفیسر بھی ایک دوسرے کے پیٹی بھائی ہیں…. تقریباً پروفیسر حضرات نے اپنی لیب کے سارے اختیارات کسی لڑکی کو سونپ رکھے ہوتے ہیں…. نوازشات ہوتی ہیں.. اپنی گاڑیوں میں پک اینڈ ڈراپ تک دے رہے ہوتے ہیں.. اگر کوئی شکایت درج کروا بھی دے تو کچھ نہیں ہوتا… برائے نام ایک انکوائری ہوتی ہے اور پروفیسر کو بے گناہ اور شریف قرار دے دیا جاتا ہے…. پہلی بات کہ انکوائری ہوتی ہی نہیں… اور ہماری یونیورسٹیوں میں وی سی صاحب تک رسائی حاصل کرنا وزیراعظم سے ملاقات کرنے کے برابر ہوتا ہے… سب سے پہلے اس سسٹم کو مضبوط کیا جائے.. شفاف کیا جائے… ورنہ تعلیم کے نام پر یہی کچھ چلتا رہے گا اور آگے آگے مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا…
اب آتے ہیں میل اور فی میل طلباء کی جانب…. تو جنسی استحصال یا درندگی کم اور اپنی مرضی زیادہ شامل ہوتی ہے… یونیورسٹی میں تمام طلباء لڑکے ہوں یا لڑکیاں سب میچور ہوتے ہیں… اچھے برے اور فائدے نقصان کا فرق بخوبی جانتے ہیں…. اس لیول پر کوئی ایک دوسرے کو تنگ نہیں کرتا… یہاں جو بھی کپل یعنی کے جوڑا بنتا ہے وہ دونوں کی باہمی رضامندی سے بنتا ہے… دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کچھ وقت گزار کر دو تین جوس کارنر پر جوس پینے اور کچھ ہوٹلوں پر کھانا کھانے کے بعد ہی ایک دوسرے کو اپنا سب کچھ سونپ دیتے ہیں۔۔۔ یہاں آغاز ہمیشہ دوستی کی آڑ میں ہوتا ہے کیونکہ یہاں دونوں ہی سمجھتے ہیں کہ دوستی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے… لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ دو مخالف جنس اچھے دوست بھی ہوں تو بھی زندگی کے کسی نا کسی موڑ پر ایک دوسرے کو کشش کرتے ہیں… یہاں پر کچھ لوگ مضبوط ہوتے ہیں اور اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے صاف رشتہ رکھ کر آگے چلتے ہیں مگر یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے….زیادہ تر جوڑے جسمانی تعلقات میں مبتلا ہو جاتے ہیں… یونیورسٹی لیول پر کوئی کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا یہاں سب کچھ دونوں فریقین کی باہمی رضامندی سے ہوتا ہے…. آپ لاہور، فیصل آباد، اسلام آباد، کراچی، ملتان اور بہاولپور جیسے بڑے بڑے شہروں کے ریسٹورنٹ، گیسٹ ہاوس اور ہوٹلوں کا اگر رات کے کسی پہر وزٹ کریں تو معلوم ہوگا یہاں پر موجود نوجوان جوڑوں میں سے اسی فیصد سے بھی زیادہ کا تعلق شہر کی مختلف یونیورسٹیوں، میڈیکل کالجوں سے ہوگا….
آپ مختلف پیزا شاپ، جوس کارنر کا وزٹ کریں تو آپ کو یہاں یونیورسٹی کی کلاسز بنک کر کے ڈیٹ پر آنے والے نوجوان جوڑوں کا ایک جم غفیر ملے گا… اور پچاس روپے والا جوس کا گلاس آپ کو 200 روپے کا ملتا ہے…. تیس منٹ تک کوئی پوچھنے نہیں آتا… تیس منٹ بعد آپ کو ایک اور آرڈر کرنا پڑتا ہے…. یہاں اندر کرسیوں کی جگہ صوفے لگے ہوتے ہیں یعنی کے پورا ماحول بنا ہوتا ہے…. آپ جو مرضی چاہیں کر سکتے ہیں…
تو یہ کہنا کہ یونیورسٹی لیول پر لڑکیوں کو جنسی زیادتی یا درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے سراسر غلط ہے…
یہاں نوجوان کپل شادی شدہ جوڑوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور پوری کلاس بلکہ پورے ڈیپارٹمنٹ کو خبر ہوتی ہے کہ کونسے والی کس کی ہے اور کونسے والا کس کا ہے؟؟؟؟ ۔۔۔۔آپ ان بڑے شہروں میں اگر شاپنگ مالز کا وزٹ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ نوجوان جوڑے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر یا کمر اور کاندھے پر ہاتھ رکھ کر خریداری کرنے نکلے ہوں گے…… جن میں زیادہ تر کا تعلق اس شہر کی مختلف یونیورسٹیوں سے ہوگا…. پارک میں جائیں تو بہت ساری تتلیاں کچھ پروانوں کے ساتھ چپک کر یا یہ کہہ لیں کہ ان کی گود میں بیٹھی ملیں گی آپ کو…..
آپ یونیورسٹیوں کا اگر وزٹ کریں تو آپ کو رات کو گرلز ہاسٹل اور بوائز ہاسٹل سے بہت سارے لڑکے اور لڑکیاں غیر حاضر ملیں گے…. ان سب کے گھر پر کال کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ تو یونیورسٹی میں ہیں… آپ مختلف ہوٹلوں اور گیسٹ ہاوس کا وزٹ کریں تو آپ کو ان میں سے زیادہ تر یہاں پر ملیں گے…. اور جن لڑکوں یا لڑکیوں کا تعلق اسی شہر سے ہے تو بھی پریشانی کی بات نہیں ہے… آپ کو شہر میں ایسے بہت سارے ہوٹل ملیں گے جو صبح 8 بجے سے ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے کیلئے نوجوان جوڑوں کو کمرے کرایہ پر دیتے ہیں… ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے ہوٹل بنے ہی اسی کام کیلئے ہیں…. اور سونے پر سہاگہ کہ ان سارے ہوٹلوں کو بڑے بڑے پولیس افسران، بیورو کریٹ یا پھر سیاستدانوں کی پشت پناہی حاصل ہے… ہر ہفتے یا مہینے کی بنیاد پر بھاری رقوم کی صورت میں بھتہ وصول کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سب کام آسانی سے ہو رہا ہے… اگر کبھی میڈیا کا دباؤ یا پھر کوئی بڑی مکبری ہو بھی تو ان ہوٹل والوں کو پہلے سے ہی آگاہ کر دیا جاتا ہے۔۔۔ پنجاب یونیورسٹی میں اپنی آنکھوں سے میں لڑکیوں کو آگے بیٹھ کر موٹر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھ چکا ہوں اور لڑکے پیچھے بیٹھ کر ان تتلیوں کو موٹر سائیکل چلانا سکھا رہے ہوتے ہیں….
پنجاب یونیورسٹی اور خاص طور پر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں آپ کو لڑکیاں چھوٹی چھوٹی شرٹس اور بہت باریک لباس پہنے اور چھوٹے چھوٹے ٹراوزر پہنے نظر آئیں گی…. دوپٹہ برائے نام ہوتا ہے یا پھر ہوتا ہی نہیں..
اتنے باریک باریک لباس ہوتے ہیں کہ جسم سارے کا سارا آویزاں ہو رہا ہوتا ہے اور سفید کپڑوں میں سیاہ رنگ صاف جھلک رہے ہوتے ہیں… میں نے اپنی ان آنکھوں سے بہت سی خواتین کو حجاب میں یونیورسٹی آتے دیکھا ہے اور پھر ایک طرف ٹھہر کر یہ حجاب اپنے پرس میں ڈال کر پرس سے ایک چھوٹا سا باریک دوپٹہ گلے میں ڈال کر اپنی اپنی کلاسز میں جاتے دیکھا ہے. پھر جب چھٹی کے وقت باپ یا بھائی کے آنے کا وقت ہوتا ہے تو پھر سے وہی حجاب پرس سے نکال کر پہن لیا جاتا ہے…. مجھے آج تک سمجھ نہیں لگی کہ یہ tights اور اوپر سے چھوٹی چھوٹی باریک شرٹس پہننے کا آخر مقصد کیا ہوتا ہے….. آ بیل مجھے مار؟
اتنی چھوٹی چھوٹی سی شرٹس پہننا اور پھر چلتے ہوئے بار بار پیچھے سے اپنی شرٹس کو درست کرنا… کیسا عمل ہے؟ کیا ضرورت ہے… یا تو پہنیں نہ… پہن لیا تو بس پھر ٹھیک ہے… کیونکہ آپ کا جسم آپ کی مرضی… پھر مرد کیوں نہ کہے کہ میری آنکھ میری مرضی؟ ۔۔۔لیکن یہ سب فیشن ہے…
یہاں پر فقرے کسنا جرم نہیں کیونکہ کھلم کھلا دعوت دی جاتی ہے فقرے کسنے کی… میوزک کنسرٹ، کلچرل فیسٹیول، اور اینول ڈنر کے نام پر ہونے والے رقص، مجرے کی محفلوں سے کم نہیں… میوزک کنسرٹ پر جسم کے ساتھ جسم لگے ہوتے ہیں اور ناچ گانے عروج پر کندھے سے کندھے جڑے ہوتے ہیں…
منشیات کا سب سے زیادہ استعمال بھی یونیورسٹی کے طلباء ہی کرتے ہیں… جن منشیات کا کبھی آپ نے نام تک نہیں سنا ہوگا وہ منشیات یونیورسٹی لیول پر آپ کو نظر آتی ہیں.. لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی ان منشیات کی عادی ہیں اور یہ بھی کسی فیشن کی طرح پروان چڑھ رہا ہے…. لڑکیوں کے ہاسٹل میں یہ منشیات انتظامیہ کے زریعے سے ہی فروخت کی جاتی ہیں اور بہت سے گروہ اپنے سہولت کار ان طالبات میں سے ہی چنتے ہیں… پہلے نشے کا عادی بنایا جاتا ہے اور پھر جسم فروشی کے مقاصد کیلئے ان لڑکیوں کا استعمال کیا جاتا ہے.. دونوں ایک دوسرے کو غلط کہہ رہے ہیں خواتین کے مطابق مرد حضرات اپنی نظروں کی حفاظت کریں اور مردوں کے مطابق خواتین اپنے جسم کی حفاظت کریں… مگر دونوں میں سے کوئی بھی اپنی اصلاح کرنے کیلئے تیار نہیں… کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے….. یہ ہسپتالوں اور کچرے کے ڈھیر میں ملنے والے نومولود بچے طوائف کے نہیں بلکہ ان تعلیم یافتہ افراد کے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری آپس میں انڈرسٹینڈنگ تھی… ہسپتالوں میں غیر قانونی طور پر ہونے والے ابھورشن اسی انڈرسٹینڈنگ کے نتائج ہیں…. نان پریگننسی کی فروخت ہونے والی ادویات کے خریدار زیادہ تر یہی انڈرسٹینڈنگ والے جوڑے ہیں… لیکن اگر یہاں کوئی سچ لکھے یا بولے تو وہ چھوٹی سوچ کا مالک ہے وہ تنگ نظر ہے وہ دیہاتی ہے…
“”””پھر میں کیوں نہ کہوں کہ ہماری یونیورسٹیاں کوٹھے اور چکلے ہیں… پھر میں کیوں نہ کہوں کہ یہ یونیورسٹیاں اور یہ تعلیمی ادارے جسموں کی تجارت کی منڈیاں ہیں..
پھر میں کیوں نہ کہوں کہ یہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی جسمانی تعلقات اور زنا کو فروغ دے کر والدین کی عزتوں کے جنازے نکال رہے ہیں… یونیورسٹی کا مطلب “مادرِ علمی ہے”… یہ کیسی ماں ہے جو اپنی بچیوں کے سر سے دوپٹہ اور جسم سے لباس اتارنے کی تربیت کو پروان چڑھا رہی ہے… یہ کیسی ماں ہے جو اپنے بیٹوں کو بے حیائی اور زنا کی تعلیم دے رہی ہے؟ ۔۔۔بلکہ یہ یونیورسٹیاں شاید طوائف کے کوٹھوں سے بھی زیادہ گری ہوئی جگہ ہیں کیونکہ ایک طوائف اپنی مجبوری کے تحت اپنا جسم فروخت کرتی ہے اور اس کے پاس آنے والے گاہک پیسے دے کر اس کا جسم خریدتے ہیں…. مگر ہماری یونیورسٹیاں وہ کوٹھے اور وہ اڈے ہیں جہاں عورت اپنا جسم اپنی مرضی سے اپنی پسند کے شخص کو خوشی خوشی پیش کرتی ہے…. اور یہاں جسم لینے والا کوئی خریدار نہیں ہے… وہ ایسا گاہک ہے جسے مفت میں شراب اور شباب مل رہی ہوتی ہے.. اور جب اپنا جسم اپنی مرضی سے پیش کیا جائے اور لینے والا عورت کی مرضی سے اس کا جسم لے تو پھر نہ تو عورت اسے جنسی زیادتی یا درندگی کا نام دیتی ہے اور نہ ہی مرد اسے جنسی زیادتی اور درندگی کا نام دیتا ہے…. یہاں اس فیشن کو “انڈرسٹینڈنگ” کا نام دیا جاتا ہے… اور اس سارے فسادات کی جڑ یہ Co-education ہے… ہمارا دین اسی وجہ سے اس نظام تعلیم کی مخالفت کرتا ہے… یہ نظام تعلیم ہماری نسلوں کو اُجاڑ رہا ہے… تباہ کر رہا ہے… یہی وجہ ہے کہ آج کے جوان پڑھے لکھے جاہل کے لقب سے نوازے جا رہے ہیں…
یہ یونیورسٹیاں تعلیم، علم، تربیت، تہزیب ،ادب، شعور کچھ بھی نہیں دے رہیں… بلکہ جو تھوڑا بہت ان سب کا تناسب موجود ہوتا ہے وہ بھی ختم ہو جاتا ہے.. ہماری یونیورسٹیاں فقط کاغذ کے ٹکڑے دے رہی ہیں.. غلامی کی سوچ اور سرکاری نوکری کے خواب عنایت کر رہی ہیں… لالچ اور حسد عنایت کر رہی ہیں… ہمیں اس بارے میں سوچنا ہوگا.. انفرادی طور پر اصلاح اور کوشش کرنی ہوگی تب جا کر اجتماعی طور پر چیزیں درست ہو سکتی ہیں… تلخ لکھنے پر معذرت خواہ ہوں… مگر جو بھی لکھا سچ لکھا ہے… اور سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے… میرے مطابق یہ موضوع بہت طویل ہے اور ایک گہرا سمندر ہے…. مگر اجازت چاہوں گا کیونکہ آج کل ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا لمبی لمبی تحاریر پڑھنے کا…

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button