پاکستاناہم خبریں

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں دو اسسٹنٹ کمشنرز کا اغوا، کئی ہفتے گزرنے کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں

"میں اور میرا بیٹا ٹھیک ہیں، لیکن ہم بہت مشکل میں ہیں۔ ان (اغوا کاروں) کے مطالبات جلدی پورے کیے جائیں تاکہ یہ ہمیں رہا کر دیں۔"

کوئٹہ (خصوصی نمائندہ):
بلوچستان میں دو اسسٹنٹ کمشنرز کے اغوا کو کئی ہفتے گزر چکے ہیں، مگر اب تک ان کی بازیابی ممکن نہیں ہو سکی۔ یہ واقعات نہ صرف صوبے میں امن و امان کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ سول انتظامیہ کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔


زیارت سے اغوا: ریٹائرمنٹ سے قبل افسوسناک واقعہ

10 اگست 2025 کو زیارت میں تعینات اسسٹنٹ کمشنر محمد افضل باقی اور ان کے نوجوان بیٹے مستنصر بلال کو اس وقت اغوا کر لیا گیا جب وہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ زیزری کے علاقے میں پکنک منانے گئے تھے۔

مسلح افراد نے اچانک حملہ کیا، سرکاری ڈرائیور اور محافظوں کو یرغمال بنایا، لیکن کچھ دیر بعد انہیں چھوڑ دیا گیا۔ اغوا کار افضل باقی اور ان کے بیٹے کو پیدل پہاڑوں کی طرف لے گئے اور ان کی سرکاری گاڑی کو نذر آتش کر دیا گیا۔


ویڈیو پیغام: "ہم بہت مشکل میں ہیں”

دو روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں محمد افضل باقی اور ان کے بیٹے کو نقاہت بھرے لہجے میں اغوا کاروں کی قید میں دکھایا گیا۔ افضل باقی نے ویڈیو میں کہا:

"میں اور میرا بیٹا ٹھیک ہیں، لیکن ہم بہت مشکل میں ہیں۔ ان (اغوا کاروں) کے مطالبات جلدی پورے کیے جائیں تاکہ یہ ہمیں رہا کر دیں۔”

یہ ویڈیو اس واقعے کی پہلی بصری شہادت ہے، جس سے نہ صرف اہلِ خانہ بلکہ سول انتظامیہ میں بھی بےچینی پھیل گئی ہے۔


تمپ، ضلع کیچ سے دوسرا اغوا: بلوچ لبریشن فرنٹ کی ذمہ داری

اس سے قبل 4 جون 2025 کو ضلع کیچ کے علاقے تمپ سے تعینات اسسٹنٹ کمشنر محمد حنیف نورزئی کو اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ اپنی اہلیہ، ڈرائیور اور محافظ کے ہمراہ کوئٹہ جا رہے تھے۔
مسلح افراد نے انہیں روکا، دیگر ساتھیوں کو چھوڑ دیا اور حنیف نورزئی کو اپنے ساتھ لے گئے۔

اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے قبول کی تھی، اور مغوی کی ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حنیف نورزئی کو "تحقیقاتی ٹیم” کے حوالے کیا گیا ہے۔ تاہم تنظیم نے اب تک اپنے مطالبات ظاہر نہیں کیے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے باضابطہ کوئی ردعمل سامنے آیا ہے۔


اغوا کے محرکات اور قیدیوں کے ممکنہ تبادلے کی چہ مگوئیاں

بعض مبصرین ان اغوا کاریوں کو قیدیوں کے تبادلے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں، مگر حکومتی سطح پر اس کی نہ تو تصدیق کی گئی ہے اور نہ تردید۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے 10 ستمبر کو ایک بیان میں کہا:

"بعض تنظیمیں لوگوں کو اغوا کر کے اپنے ساتھیوں کو رہا کرانا چاہتی ہیں۔”

یہ بیان اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حکومت اس صورتحال سے واقف ہے مگر حکمتِ عملی کو فی الحال عوامی سطح پر نہیں لایا جا رہا۔


افسران اور اہلخانہ شدید ذہنی دباؤ میں

افضل باقی کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے، اور وہ اسی ماہ ریٹائر ہونے والے تھے۔ وہ محکمہ مال سے وابستہ رہے اور بلوچستان کے مختلف اضلاع میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔

دوسری جانب حنیف نورزئی کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور وہ ایک متحرک اور عوام دوست افسر سمجھے جاتے تھے۔
دونوں خاندان شدید اضطراب اور پریشانی کا شکار ہیں۔ گل داد نورزئی، حنیف نورزئی کے بھائی، نے تربت میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اغوا کاروں سے اپیل کی کہ ان کے بھائی کو انسانی ہمدردی اور بلوچ روایات کے تحت رہا کیا جائے۔


حکومتی اقدامات اور کوششیں

بلوچستان حکومت نے افضل باقی اور ان کے بیٹے کے اغوا کاروں کی معلومات فراہم کرنے والے کے لیے پانچ کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔
ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ حمزہ شفقات کے مطابق:

"زیارت کے مغوی افسر اور ان کے بیٹے کی زرغون غر کے پہاڑی سلسلے میں موجودگی کا خدشہ ہے اور وہاں مسلسل نگرانی جاری ہے۔ کچھ شواہد ملے ہیں، جن سے امید ہے کہ مغوی جلد بازیاب ہو جائیں گے۔”

اسی طرح تمپ میں بھی قبائلی سطح پر مذاکرات اور آپریشنز کا سلسلہ جاری ہے۔


افسران پر بڑھتے ہوئے حملے: ایک تشویشناک رجحان

گزشتہ چند برسوں میں انتظامی افسران پر حملوں اور اغوا کی وارداتوں میں تشویشناک اضافہ دیکھا گیا ہے:

  • مئی 2025: ضلع سوراب میں شدت پسندوں کے حملے میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہدایت اللہ بلیدی شہید

  • اگست 2024: ڈپٹی کمشنر پنجگور ذاکر بلوچ کو مستونگ میں قتل

  • فروری 2014: کیچ میں ڈپٹی کمشنر سمیت 5 افسران اغوا (بعد ازاں رہا)

اس رجحان کے باعث فیلڈ میں تعینات افسران میں خوف، دباؤ اور بداعتمادی کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق حساس علاقوں میں افسران کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی ہے اور انہیں ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی سکیورٹی اور آمد و رفت کو خفیہ اور محتاط رکھیں۔


وزیراعلیٰ بلوچستان کا ردعمل: "انتہائی تشویش ہے”

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے حالیہ پریس کانفرنس میں کہا:

"مجھے بحیثیت وزیراعلیٰ اسسٹنٹ کمشنرز کے اغوا پر سخت تشویش ہے۔ سکیورٹی فورسز مغویوں کی بازیابی کے لیے تندہی سے کام کر رہی ہیں۔”

ان کے مطابق کوہ خلفت کے علاقوں میں آپریشن جاری ہے، اور تمام ریاستی وسائل کو استعمال میں لایا جا رہا ہے۔


زیارت اور کیچ: ماضی کے واقعات بھی تشویش کا باعث

زیارت، جو عموماً پُرامن اور سیاحتی مقام سمجھا جاتا ہے، ماضی میں بھی دہشتگردی کا نشانہ رہا ہے۔

  • جون 2013: قائداعظم ریذیڈنسی پر بلوچ لبریشن آرمی کا حملہ

  • جولائی 2022: لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا کا اغوا و قتل

ضلع کیچ، جو ایران سرحد سے متصل ہے، بلوچستان کا سب سے زیادہ شورش زدہ علاقہ تصور کیا جاتا ہے، جہاں بی ایل ایف اور بی ایل اے جیسی کالعدم تنظیمیں فعال ہیں۔


نتیجہ: ایک آزمائش، ایک سوال

یہ واقعات نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے انتظامی ڈھانچے کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ جب ریاست کے نمائندے — وہ بھی غیر سیاسی، عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار — یرغمال بننے لگیں، تو یہ صرف سکیورٹی کا مسئلہ نہیں، بلکہ ریاست کی رٹ اور حکمرانی کی ساکھ کا سوال بھی بن جاتا ہے۔

اب تمام نگاہیں سکیورٹی اداروں اور حکومت بلوچستان پر مرکوز ہیں، کہ وہ کس حد تک ان افسروں کو بسلامت بازیاب کروا پاتی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button