
خاموشی کی قیمت: تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟…..سید عاطف ندیم
آزادی اظہار کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مغربی ممالک میں آج فلسطین کے حق میں بولنا جرم بن چکا ہے۔
اگر تاریخ ہمیں کچھ سکھاتی ہے، تو یہ کہ ظلم کے خلاف خاموشی ہمیشہ ظالم کے حق میں جاتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنی نے لاکھوں انسانوں کو صرف ان کے عقائد، نسلی پس منظر یا جسمانی معذوری کی بنیاد پر نشانہ بنایا۔ یہ سب مغرب کی ’’آزادی‘‘، ’’انسانی حقوق‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے علمبرداروں کی خاموش نظروں کے سامنے ہوا۔ اُس وقت بھی "کچھ نہ جاننے” کا بہانہ بنایا گیا، اور آج بھی۔
وقت کا پہیہ آگے بڑھ چکا ہے۔ نازیوں کی شکست کو 80 برس سے زائد ہو چکے ہیں، مگر ایک سوال آج بھی پوری شدت سے گونجتا ہے:
کیا مغرب نے واقعی ’’دوبارہ کبھی نہیں‘‘ کے عہد سے کچھ سیکھا ہے؟
اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ محض ایک جنگ نہیں۔ یہ محض ’’دہشتگردی کے خلاف کارروائی‘‘ یا ’’قومی دفاع‘‘ کا مسئلہ نہیں، جیسا کہ صہیونی بیانیہ پیش کرتا ہے۔ یہ ایک منظم نسل کشی، زمین سے جبری بے دخلی اور بچوں، عورتوں، مریضوں کے اجتماعی قتل عام کی کھلی کہانی ہے – اور یہ کہانی انہی ملکوں کی سرپرستی میں لکھی جا رہی ہے جنہوں نے نازی جرائم پر ندامت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔
خود جرمنی، جو ہولوکاسٹ کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے، آج اسرائیل کی اندھی حمایت میں اس قدر آگے جا چکا ہے کہ نسل کشی کے واضح اشارے بھی اس کی سیاسی قیادت کو چونکا نہیں پا رہے۔ شاید وجہ یہ ہے کہ آج مظلوم کی جگہ لینے والا اسرائیل خود کو اسی درد کا وارث سمجھتا ہے، اور مظلوم ہونے کا یہ بیانیہ آج اُسے خود مظالم کی اجازت دے رہا ہے۔
اس ستم ظریفی کا سب سے کربناک پہلو وہ ہے جب ہم یہودی برادری کے افراد کو غزہ کے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرتے دیکھتے ہیں۔ وہ زندہ بچ جانے والے جو ہولوکاسٹ کی بھیانک راتوں کے گواہ رہے، یا اُن کی نسلیں – آج وہی لوگ ’’نہتے فلسطینیوں پر ظلم بند کرو‘‘ کی پکار بلند کر رہے ہیں۔ سڈنی، لندن، نیویارک، برلن – ہر بڑے شہر میں ایسی آوازیں ابھرتی ہیں جو نہ صرف اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کرتی ہیں، بلکہ اپنے ضمیر کے ساتھ کھڑی ہیں۔
آزادی اظہار کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مغربی ممالک میں آج فلسطین کے حق میں بولنا جرم بن چکا ہے۔
برطانیہ میں ’فلسطین ایکشن‘ جیسا گروہ دہشتگرد قرار دیا جا چکا ہے۔
آسٹریلیا میں جلین سیگل جیسے افراد کو حکومت یہود دشمنی کے خاتمے کے نام پر ایسے اختیارات دے رہی ہے، جو سیدھے سیدھے تنقید کو دبانے کی کوشش ہے۔
امریکہ میں یونیورسٹیز، میڈیا، حتیٰ کہ علمی ادارے بھی اسرائیلی پالیسیوں پر سوال اٹھانے سے کتراتے ہیں۔
کیا یہ سب کچھ جمہوریت اور آزادی کے بنیادی اصولوں کے خلاف نہیں؟
کیا "ہولوکاسٹ سے سبق” کا مطلب صرف فلسطینیوں کو خاموش کروانا ہے؟
جہاں یورپ اور امریکہ صہیونی مظالم پر خاموش یا سہولت کار بنے بیٹھے ہیں، وہیں جنوبی افریقہ، کولمبیا، آئرلینڈ اور اسپین جیسے ممالک اب ’’ضمیر کی سیاست‘‘ کے ترجمان بن کر ابھر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی نمائندہ فرانچسکا البانیس، جنہوں نے نسل کشی میں ملوث کمپنیوں کو بے نقاب کیا، آج خود امریکی پابندیوں کا شکار ہیں۔ یہ اس حقیقت کی علامت ہے کہ سچ بولنا بھی جرم ہے، اگر وہ سچ کسی طاقتور کے خلاف ہو۔
آج فلسطین کے مظالم پر بات کرنا آپ کو ’’یہود دشمن‘‘، ’’دہشتگرد ہمدرد‘‘، یا ’’ملک دشمن‘‘ قرار دے سکتا ہے۔
کیا یہی وہ جمہوریت ہے جس کے نام پر مغرب نے دنیا پر اپنی برتری قائم رکھی؟
کیا مغرب اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ اب اسے اپنے نظریات سے زیادہ اپنی لابیوں کا خوف ہے؟
ہولوکاسٹ پر مغرب نے بعد میں پچھتاوے کے آنسو بہائے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وہی تاریخ آج غزہ کے بچوں، خواتین اور بوڑھوں کے حوالے سے دہرائی جا رہی ہے؟
کیا آئندہ نسلیں مغرب کو اس وقت کی بزدلی، خاموشی اور تعصب کے ساتھ یاد رکھیں گی؟
جو قومیں ظلم پر خاموش رہتی ہیں، وہ ایک دن خود بھی مظلوم بن جاتی ہیں۔
جو قومیں سچ کو دبانے کے لیے قوانین بناتی ہیں، وہ ایک دن سچ کے سامنے رسوا ہو جاتی ہیں۔
کاش! یہ خواب پھر سے سچ ہو…
ایک وقت تھا جب خیال تھا کہ اسرائیل کے اندر سے ہی فسطائیت کے خلاف مزاحمت اٹھے گی۔
آج وہ خواب بکھرتا جا رہا ہے۔
لیکن خوابوں کے مرنے سے سچ نہیں مرتے۔
ہو سکتا ہے آج فلسطین کی آواز دبائی جا رہی ہو،
لیکن کل کے مورخ کو یہ خاموشی سب سے بڑا جرم لگے گی۔

