
چاغی / کوئٹہ( نمائندہ خصوصی) — بلوچستان کے سرحدی ضلع چاغی کے مرکزی قصبے دالبندین میں بدھ کے روز سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ایک انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے سابق چیئرمین اور معروف وکیل زبیر احمد بلوچ ہلاک ہوگئے، جس کے بعد بلوچستان میں سیاسی، سماجی اور صحافتی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔
حکام کے مطابق کارروائی کے دوران کالعدم تنظیم سے وابستہ دو افراد مارے گئے جبکہ ایک شخص کو گرفتار کیا گیا۔ ہلاک شدگان میں زبیر بلوچ اور نثار احمد مینگل شامل ہیں، جبکہ گرفتار ہونے والے شخص کی شناخت جہانزیب عرف علی جان کے طور پر ہوئی ہے، جس کا تعلق کوئٹہ کے علاقے سمنگلی روڈ سے بتایا جاتا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس آپریشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ زبیر بلوچ کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے انٹیلیجنس ونگ ’زراب‘ سے وابستہ ایک ہارڈ کور دہشت گرد تھا، جو بظاہر وکیل کی حیثیت سے کام کررہا تھا لیکن درحقیقت شدت پسندی اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھا۔
فائرنگ، دھماکے اور تین گھنٹے طویل مقابلہ
دالبندین کے علاقے کلی یار محمد میں بدھ کی علی الصبح سیکیورٹی فورسز نے زبیر بلوچ کے گھر پر چھاپہ مارا۔ مقامی افراد کے مطابق فائرنگ اور دھماکوں کا سلسلہ تین گھنٹے تک جاری رہا، جس سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق کارروائی سے قبل سپیکر پر سرنڈر کرنے کی اپیل کی گئی، جس پر فوری فائرنگ شروع ہوگئی۔
وزیراعلیٰ بگٹی کے مطابق زبیر بلوچ نے فورسز کے گھیراؤ کے دوران گرفتاری سے بچنے کے لیے خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی، جبکہ نثار احمد مینگل سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں مارا گیا۔ زبیر بلوچ کے موبائل کو بھی فائرنگ کر کے تباہ کر دیا گیا تاکہ فرانزک تجزیہ نہ ہوسکے — جسے وزیراعلیٰ نے "ایک تربیت یافتہ دہشت گرد کا طریقہ کار” قرار دیا۔
زبیر بلوچ کی شناخت اور پس منظر
تقریباً 35 سالہ زبیر بلوچ کا تعلق ضلع مستونگ کے علاقے کلی شیخان سے تھا۔ وہ علیزئی دہوار قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ شادی شدہ اور ایک چار سالہ بیٹے کے والد تھے۔ ان کے بھائی کوئٹہ کے معروف ڈینٹسٹ اور ماضی میں سرکاری ٹی وی پر میزبانی کرچکے ہیں۔
زبیر بلوچ نے لاء کالج کوئٹہ سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور کوئٹہ میں وکالت کا آغاز کیا، بعد ازاں دالبندین منتقل ہوکر وہاں پریکٹس شروع کی۔ پولیس ذرائع کے مطابق وہ دالبندین کی عدالتوں میں باقاعدگی سے پیش ہوتے تھے اور شہر کے مرکزی علاقے میں کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔
زبیر بلوچ 2020 اور 2021 کے دوران بی ایس او (پجار) کے چیئرمین رہے۔ اس سے قبل وہ مرکزی آرگنائزر بھی رہ چکے تھے۔ وہ طلبہ سیاست، انسانی حقوق، اور لاپتہ افراد کے مسئلے پر سرگرم تھے اور کئی مرتبہ گرفتار بھی ہوئے۔ ان کی گرفتاری کا ایک واقعہ بولان میڈیکل یونیورسٹی ایکٹ کے خلاف احتجاج کے دوران بھی سامنے آیا۔
سابق ساتھیوں کی حیرت اور سوالات
زبیر بلوچ کی شدت پسند تنظیم سے وابستگی کی خبر نے ان کے سابق ساتھیوں اور طلبہ تنظیم کے رہنماؤں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ بی ایس او (پجار) کے ایک سابق وائس چیئرمین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ وہ زبیر بلوچ کو ایک باشعور، سیاسی اور پرامن جدوجہد پر یقین رکھنے والے رہنما کے طور پر جانتے تھے۔
ان کے مطابق بی ایس او (پجار) کے اکثر رہنما تعلیم مکمل کرنے کے بعد نیشنل پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں، لیکن زبیر بلوچ نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا اور دالبندین منتقل ہونے کے بعد ان سے رابطے بھی کم ہوگئے تھے۔
"اگر یہ بات سچ ہے کہ وہ عسکریت پسند تنظیم سے وابستہ تھے تو یہ ہمارے لیے حیرت انگیز ہے۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ زبیر بندوق اٹھائے گا۔”
ریاست، عسکریت پسندی اور نوجوانوں کا رخ
نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اور بی ایس او کے سابق چیئرمین اسلم بلوچ کا کہنا ہے کہ اگر زبیر بلوچ واقعی شدت پسند سرگرمیوں میں ملوث تھے تو یہ ایک سنجیدہ لمحہ فکریہ ہے کہ پرامن طلبہ رہنما شدت پسندی کی طرف کیوں مائل ہورہے ہیں؟
ان کے بقول: "بلوچستان میں سیاسی جدوجہد کے دروازے بند کیے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے مایوس نوجوان عسکریت پسند تنظیموں کا رخ کررہے ہیں۔”
تاہم وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے اس بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "یہ کہنا غلط ہے کہ بلوچستان میں مسلح مزاحمت احساس محرومی یا ترقی نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اصل وجہ غیر ملکی ایجنسیوں کی پشت پناہی اور قوم پرستی کی بنیاد پر نوجوانوں کی ذہن سازی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی مخصوص پیشہ نہیں ہوتا، وہ وکیل، پروفیسر یا طالبعلم بھی ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے اگست میں گرفتار ہونے والے آئی ٹی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ یومِ آزادی کے موقع پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔
بلوچ تحریک، طلبہ سیاست اور عسکریت پسندی — ایک تجزیاتی پس منظر
بلوچ طلبہ تحریک پر تحقیق کرنے والے صحافی و تجزیہ کار ضیاء الرحمان کے مطابق بی ایس او کی تاریخ کو سمجھے بغیر بلوچستان کی شورش کو سمجھنا ممکن نہیں۔ ان کے مطابق بی ایس او ابتدا ہی سے اینٹی سردار اور پرو سردار دھڑوں میں تقسیم رہی ہے۔
بی ایس او آزاد جیسے دھڑوں کی زیرزمین سرگرمیوں اور بعد میں ان کے رہنماؤں کے عسکری تنظیموں میں شامل ہونے کا رجحان موجود رہا ہے۔ تاہم بی ایس او پجار یا بی ایس او مینگل کے رہنماؤں کا عسکریت پسندی کی طرف جانا نادر رہا ہے۔ اس لحاظ سے زبیر بلوچ کی مبینہ وابستگی ایک اہم اور غیرمعمولی واقعہ سمجھا جارہا ہے۔
ضیاء الرحمان کے مطابق: "سابق طلبہ رہنماؤں کا عسکریت پسند تنظیموں میں شامل ہونا اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ نوجوانوں کی مایوسی کس قدر گہری ہوچکی ہے۔ اب یہ عمل کسی مخصوص قبائلی یا غیر تعلیم یافتہ طبقے تک محدود نہیں رہا۔”
نتیجہ: سوالات باقی ہیں
زبیر بلوچ کی ہلاکت اور ان پر شدت پسندی میں ملوث ہونے کے الزامات نے بلوچستان کے سیاسی و سماجی حلقوں کو ایک مرتبہ پھر یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر کیوں تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور سیاسی تربیت یافتہ نوجوان ریاستی نظام سے دور ہوکر بندوق اٹھانے پر مجبور ہورہے ہیں؟
کیا زبیر بلوچ واقعی عسکریت پسندی کی راہ پر گامزن ہوچکے تھے؟ یا ان کے خلاف کارروائی کسی خفیہ ایجنڈے کا حصہ تھی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات شاید وقت ہی دے گا — یا پھر ہمیشہ کے لیے بےیقینی میں ڈھل جائیں گے۔



